سری لنکا میں مخالف مسلم تشدد

وطن سے دور ہوئے خانماں خراب ہوئے
سزا ملی ہے ہمیں خواب نئے سجانے کی
سری لنکا میں مخالف مسلم تشدد
ساری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے تسلسل میں اب سری لنکا کے مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ماینمار میں بدھسٹوں کی دہشت گردی اور ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس گروپ کے حوصلے دیگر ملکوں میں خون ریز واقعات کی شکل میں بلند ہورہے ہیں۔ تو یہ خطرناک چلن ہے جس کو فوری روکنا ضروری ہے۔ سری لنکا کے جنوب مغربی ٹاؤن میں مقیم مسلمان اور بدھسٹ نسل در نسل پرامن طور پر زندگی گزارتے آرہے تھے۔ سیاحت کے لئے مشہور یہ علاقہ اب فرقہ پرستی کی آگ میں جل اُٹھا ہے۔ مسلمانوں کے مکانات، دوکانات اور موٹر گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ بدھسٹوں کو ایک پرامن اور خاموش قوم سمجھا جاتا تھا لیکن اب بدھسٹوں کے راہبوں نے تشدد کی راہ اختیار کی ہے تو اس سے چوکسی اختیار کرنا حکومتوں اور لاء اینڈ آرڈر کی برقراری کے ذمہ داروں کا کام ہے۔ ویڈیو تصاویر میں یہ واضح بتایا گیا کہ بدھسٹوں کے راہبوں نے مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کئے۔ اس ثبوت کے باوجود حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے تو قتل و غارت گری کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ عالمی سطح پر مسلم ملکوں کے نمائندوں نے حال ہی میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقدہ تنظیم اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں سری لنکا واقعہ کی مذمت کی ہے۔ اس سے صرف وقتی اظہار افسوس کا فریضہ پورا ہوتا ہے۔ مستقبل میں مسلم کش فسادات کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس کارروائی کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ سری لنکا میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف مقامی طور پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ کولمبو میں مسلم تاجروں نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کے لئے اپنے کاروبار کو بند رکھا۔ بدھ مت اکثریت والے سری لنکا کی آبادی میں تقریباً 10 فیصد مسلمان ہیں۔ مسلمانوں پر نسلی حملوں نے صدر مہندا راجہ پکسے کے لئے چیلنج کھڑا کیا ہے۔ مسلم رہنماؤں نے صدر پر زور دیا کہ انھیں بدھسٹوں کے حملوں اور تشدد سے تحفظ دیا جائے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پھیلاؤ پرامن معاشرہ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ مقامی، قومی اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے تعلق سے پھیلائی جانے والی نفرت کی چنگاریوں کے نتائج افسوسناک حد تک بھیانک برآمد ہوں گے۔ تنظیم اسلامی کانفرنس نے ساری دنیا میں مسلمانوں کی زندگیوں کا جائزہ ضرور لیا ہے مگر اس نے اپنے اندر اتنی قوت اور طاقت پیدا نہیں کی کہ وہ دیگر اقوام کو امن کا پابند بنانے میں اہم رول ادا کرسکے۔ اقوام متحدہ کی موجودگی مسلمانوں کے لئے بے فیض ہے لیکن مسلم طاقتور ملکوں کے سربراہوں کی تعداد قوت، طاقت، قابلیت اور اثر و رسوخ کی حامل ہونے کے باوجود وہ عالمی امن اور مسلم تحفظ کے لئے ٹھوس پروگرام و پالیسیاں بنانے میں ناکام ہے۔ یہ فطری عمل ہے کہ انسان ہو یا کوئی ریاست یا قوم اندر سے کمزور پڑجائے یا ہمدردی کا تاثر دے تو ہر مصیبت اور مصائب اس کا رُخ کرتی ہیں۔ مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان اور مسلم اقوام کے اندر پھوٹ کی وجہ سے قوم بڑی طاقت بن کر اُبھر نہیں سکی۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں کی حکومت بھی کئی قوتوں پر بھاری تھی۔ بات سیدھی ہے کہ ماینمار میں بدھسٹوں کے ظلم کو روکنے میں ناکامی اور مسلمانوں کی اختیار کردہ خاموشی نے دیگر ملکوں کے بدھسٹوں فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو ہوا دی ہے۔ مسلمانوں کو دفاعی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے اتنا کمزور بنادیا گیا ہے کہ وہ خراب حالات کا سامنا کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے جو مسلمان قوت بازو رکھتے ہیں وہ دیگر ملکوں کی طاقتوں سے مرعوب ہوکر اپنی اہمیت گھٹارہے ہیں۔ اس لئے دشمن قوتوں کو موقع فراہم ہورہا ہے۔ جب بھی مسلمانوں پر مظالم ہوتے ہیں چند ایک ملک اخلاقی ہمدردی کا مظاہرہ کرکے مسلمانوں کے غم و غصہ کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرکے انھیں مزید کمزور بنادیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمان ہر سانحہ کے بعد اسے بھول جاتے ہیں۔ حالات سے سبق حاصل کرکے خود کے اندر قوت پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے۔ اگر ماینمار اور سری لنکا یا کسی اور ملک میں مسلمانوں کے عرصہ حیات کو تنگ کرنے کا سلسلہ وسعت پائے تو پھر آگے کیا ہوگا۔ مسلم کش فسادات کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے تو مسلم قوم کو نفسیاتی مریض بناکر چھوڑ دینے کی سازش کرنے والوں کو کامیابی مل جائے گی۔
عراق میں ہندوستانی ورکرس
عراق میں تشدد سے متاثرہ علاقوں میں پھنسے ہندوستانیوں کی بحفاظت واپسی کے لئے حکومت ہند کوشاں ہے۔ عراق کے انتہا پسندوں نے موصل ٹاؤن میں 40 ہندوستانی ورکرس کا اغواء کیا تو ان کی رہائی کا مسئلہ سنگین بن گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جائزہ اجلاس میں صورتحال پر غور و خوض کیا۔ حکومت کے لئے یہ واقعہ اس حقیقت کی جانب بھی توجہ مبذول کراتا ہے کہ بیرونی ملکوں میں ہندوستانی ورکرس کی ابتر حالت کے لئے زیادہ تر وہ لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں جو ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرکے گمراہ کن طور پر ہندوستانی عوام کو پریشان کرتے ہیں۔ عراق میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے شہری مقیم ہیں۔ تلنگانہ اور آندھرا کے علاوہ مغویہ 40 ورکرس میں سے زیادہ تر کا تعلق ریاست پنجاب سے ہے۔ یہ ہندوستانی نوجوان زیادہ تر روزگار کی تلاش میں ایسے ایجنٹوں سے رجوع ہوئے ہیں جو انھیں جھانسہ دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عراق میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں میں سے اکثر شہری ایجنٹوں کے جھانسہ کا شکار ہوئے ہیں۔ خلیجی ملکوں سے غیر قانونی طور پر ملازمتیں فراہم کرنے کے سنڈیکیٹس کام کرتے ہیں۔ کم فیس میں اچھا روزگار دینے کا جھوٹا وعدہ کرکے یہ ایجنٹس ہندوستانی نوجوانوں کو بیرونی ملک لے جاتے ہیں۔ پنجاب اور دیگر کئی ریاستوں میں ایسے کئی غیر مجاز ٹراویل آپریٹرس کام کررہے ہیں جو بیرونی ملکوں میں کنٹراکٹس کمپنیوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہی ایجنٹس نوجوانوں کو اچھی ملازمت فراہم کرنے کا وعدہ کرکے ان سے 2 تا 4 لاکھ روپئے فیس لیتے ہیں اور وعدہ کیا جاتا ہے کہ انھیں ماہانہ 1000 ڈالر تا 2000 ڈالر کی ملازمت فراہم کی جائے گی۔ عراق میں پھنسے ہندوستانیوں میں سے اکثر نوجوانوں کو دراصل دوبئی میں ملازمت دینے کا وعدہ کرکے عراق پہونچایا گیا ہے۔ ہندوستان سے ان نوجوانوں کو دوبئی لے جاکر بغیر کام کاج کے ایجنٹس کی نگرانی میں رکھا جاتا ہے اور بعدازاں یہاں سے عراق یا دیگر مشرقی وسطیٰ کے ملکوں میں کنسٹرکشن غیر قانونی کمپنیوں کے ایجنٹس کے طور پر کام کرنے والے ٹراویل آپریٹرس مجبور اور بیروزگار نوجوانوں کو دوبئی لے جاکر وہاں سے براہ قطر اور کویت، عراق پہونچادیتے ہیں۔ اس طرح کی سچائی سامنے آنے کے بعد حکومت کو غیر قانونی ایجنٹس کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ بعض ہندوستانی نوجوان اپنے پاس کارآمد دستاویزات نہیں رکھتے انہیں ایجنٹس اپنا غلام بناکر رکھتے ہیں۔ اس طرح کی تلخ حقیقت سامنے آتی ہیح توحکومت کی توجہ ضروری ہوجاتی ہے۔ ایجنٹس جن نوجوانوں کو 1200 درہم تنخواہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن انھیں نصف تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ بیروزگار نوجوانوں کو ایجنٹوں کے جھانسوں سے بچانے کے لئے سرکاری لیگل سیل کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔ رشوت ستانی کا مسئلہ ہر جگہ موجود ہے۔ دوبئی میں اگر سرحد پر تعینات آفیسرس رشوت لے کر ایجنٹوں کے فرضی دستاویزات کے ذریعہ ہندوستانی نوجوانوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو یہ بہت بڑا ریاکٹ ہے جس کو صرف سرکاری سطح پر ٹھوس اقدامات کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے۔