سرکاری میڈیا کس ڈگر پر ؟

کتاب دل کا کوئی ورق بھی سادہ نہیں ہوتا
نگاہ اس کو بھی پڑھ لیتی ہے جو لکھا نہیںہوتا
سرکاری میڈیا کس ڈگر پر ؟
جو اندیشے بی جے پی زیر قیادت حکومت کے مرکز میں برسر اقتدار آنے سے قبل ظاہر کئے جارہے تھے ایسا لگتا ہے کہ اب درست ثابت ہونے لگے ہیں۔ مرکز میں نریندرمو دی کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت کو ابھی چھ مہینے کا وقت پورا نہیں ہوا ہے لیکن اس نے اپنے عزائم واضح کرنے شروع کردئے ہیں۔ اس کی اولین اور سب سے واضح مثال آر ایس ایس سربراہ موہن بھگوت کی دسہرہ تقریر کا دوردرشن سے راست ٹیلی کاسٹ ہے ۔ ویسے تو 1925 میں آر ایس ایس کے قیام کے بعد سے ہر سال آر ایس ایس کے سربراہ دسہرہ کے موقع پر ناگپور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں اس تقریر کو اہمیت بھی حاصل ہوتی رہی ہے کیونکہ اس تقریر کے ذریعہ آر ایس ایس اپنی حکمت عملی واضح کرتی رہی ہے ۔ اس میں بی جے پی اور آ رایس ایس کے نظریہ سے اتفاق رکھنے والی تنظیموں کیلئے ایک پیام ہوتا ہے ۔ لیکن اس بار جب مرکز میں مودی کی زیر قیادت حکومت کو قائم ہوئے چار ماہ کا عرصہ ہوا ہے اس حکومت نے اپنے عزائم اور اپنے منصوبے واضح کرنے شروع کردئے ہیں۔ ہندو تنظیموں کے حوصلے اور عزائم تو ویسے ہی گذشتہ دنوں سے بلند نظر آنے لگے ہیں اور وہ شر انگیزیوں کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ کبھی لو جہاد کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی تبدیلی مذہب کے نام پر منافرت پھیلائی جاتی ہے ۔ کبھی گاؤ کشی روکنے کے نام پر غنڈہ گردی ہو رہی ہے تو کبھی در اندازی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے ۔ ایسے میں اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ہندو تنظیموں کو سرکاری سرپرستی کا باضابطہ آغاز ہوگیا ہے ۔ دسہرہ کے موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کی تقریر کو دور درشن سے راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا ہے ۔ یہ نہ صرف آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اولین موقع ہے بلکہ خود آر ایس ایس کے قیام کے بعد بھی پہلا موقع تھا ۔ اس کا نہ کوئی جواز ہوسکتا ہے اور نہ اس کی کوئی توضیح قابل قبول ہوسکتی ہے ۔ یہ بالکلیہ طور پر سرکاری میڈیا کے بیجا استعمال اور اس کے ذریعہ اپنے عزائم کی تکمیل اور ایک مخصوص فرقہ کے فروغ کی کوشش ہے جس کی دستور ہند میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ حکومت نے اس تقریر کے راست ٹیلی کاسٹ کے ذریعہ عملا اپنے پوشیدہ عزائم آشکار کردئے ہیں۔
آر ایس ایس سربراہ کی تقریر کا راست ٹیلی کاسٹ اس لئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ آر ایس ایس ہی بی جے پی کا نظریاتی سرچشمہ کہلاتی ہے اور بی جے پی مرکز میں اقتدار پر فائز ہے ۔ اسی کے اشاروں اور عملا اسی کے احکام پر بی جے پی کاربند نظر آتی ہے ۔ اب یہ تاثر یقینی طور پر پیدا ہوتا کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت بھی اپنے طور پر اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اپنے طور پر کام کرنے کے موقف میں نہیں ہے بلکہ اس کا کنٹرول کہیں اور نہیں بلکہ ناگپور میں آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے اکثر و بیشتر سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ وہ سونیا گاندھی کے اشاروں پر کا م کرتے ہیں اور حکومت کا کنٹرول در اصل 10 جن پتھ ( سونیا گاندھی کی قیامگاہ ) میں ہے ۔ اب حکومت کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا ریموٹ کنٹرول کہا ں ہے ۔ ملک کے عوام سے واضح تائید ملنے اور پارلیمنٹ میں اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے کے بعد بی جے پی حکومت کیوں کسی ریموٹ کنٹرول کے تحت کام کرنے پر مجبور ہے ؟ ۔ کیا ایسا کرنا ملک کے عوام کی جانب سے دئے گئے ووٹ اور تائید کی توہین نہیں ہے ؟ ۔ کیا عوام نے ریموٹ کنٹرول طرز حکومت سے بیزار ہوکر اتحادی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے واحد جماعت کو ووٹ نہیں دیا تھا ؟ ۔
ایسا لگتا ہے کہ اب آر ایس ایس ملک پر بالواسطہ طور پر حکمرانی کریگی ۔ عوام نے بی جے پی کے حق میں جو ووٹ دیا تھا وہ ضائع ہوگیا ہے اور اقتدار آر ایس ایس کے ہاتھ میں آگیا ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ کی تقریر کے ٹیلی کاسٹ پر جہاں حکومت خاموش ہے وہیں دور درشن کا کہنا ہے کہ محض ایک نیوز کے طور پر اس تقریر کو ٹیلی کاسٹ کیا گیا ہے ۔ دور درشن کے حکام کو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اب تک اسے نیوز کے طور پر نہیں دیکھا گیا تھا تو اس بار ایسا کیا خاص تھا کہ اسے راست نشر کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ ۔ کیا دور درشن کو یہ احساس نہیں ہے کہ آر ایس ایس ایسی تنظیم ہے جس کے کارکن ملک میں دہشت گردانہ بم دھماکوں میں ملوث ہیں ؟ ۔ کیا دور درشن کی جانب سے ایسی کسی دوسری تنطیموں کے ساتھ بھی اتنا فراخدلانہ رویہ رکھا جاسکتا ہے ؟ ۔ دور درشن ماضی کی ایسی کوئی نظیر بھی نہیں پیش کرتا جب اس طرح کی تقاریر کا راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا ہو ۔ نفرت پھیلاکر ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے والی تنظیم کو سرکاری میڈیا پر پیش کرنا در اصل متعصب ذہنیت کی عکاسی ہے اور اس عمل کو ایک مستقل روایت بننے سے روکنا چاہئے ۔