اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے مختص بجٹ کے عدم خرچ کی بھی نشاندہی ، حکومت کو پیش کردہ رپورٹ میں سدھیر کمیشن کی وضاحت
حیدرآباد۔/28اکٹوبر، ( سیاست نیوز) سدھیر کمیشن آف انکوائری نے تلنگانہ میں سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی غیر متناسب نمائندگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی اقلیتوں کی بھلائی کیلئے مختص کئے جانے والے بجٹ کے عدم خرچ کی بھی نشاندہی کی۔ جی سدھیر ریٹائرڈ آئی اے ایس عہدیدار کی قیادت میں قائم کردہ کمیشن آف انکوائری نے حکومت کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ نظام دور حکومت میں روزگار میں مسلمانوں کا اہم حصہ تھا لیکن انڈین یونین میں انضمام کے بعد اس میں کمی واقع ہونے لگی۔ تحقیقاتی کمیشن نے حکومت کے 208 محکمہ جات اور سرکاری اداروں سے مسلمانوں کی ملازمتوں کے بارے میں تفصیلات طلب کی تھیں لیکن 131 محکمہ جات نے کمیشن کو تفصیلات روانہ کیں۔ یہ محکمہ جات سکریٹریٹ کے 23 محکموں کے تحت کام کرتے ہیں ان کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق مجموعی طور پر سرکاری ملازمین کی تعداد 4 لاکھ 79 ہزار 556 ہے جس میں مسلمانوں کی حصہ داری صرف 7.36 فیصد ہے۔ کمیشن نے یہ احساس ظاہر کیا کہ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 12.68فیصد ہے اس اعتبار سے روزگار میں ان کی شراکت انتہائی کم ہے۔ کمیشن نے اہم محکمہ جات میں مسلمانوں کی کم حصہ داری کی نشاندہی کی اور کہا کہ ان محکمہ جات میں کم نمائندگی سے فیصلہ سازی اور حکومت کی اسکیمات پر عمل آوری متاثر ہوسکتی ہے۔ محکمہ تعلیم میں 6.53 فیصد، داخلہ 8.73 فیصد اور سماجی بھلائی میں 3.37فیصد مسلم ملازمین ہیں۔ کمیشن نے ملازمتوں میں مسلم خواتین کی حصہ داری کو انتہائی کم قرار دیا اور بتایا کہ 23 محکمہ جات میں مسلم مرد ملازمین کا حصہ 8.09 فیصد ہے جبکہ مسلم خواتین 5.24 فیصد ہیں۔ کمیشن نے اڈمنسٹریٹیو سرویسیس میں مسلمانوں کی کم نمائندگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تلنگانہ میں منظورہ 340 اڈمنسٹریٹیو سرویس عہدیداروں میں مسلمانوں کا حصہ صرف 2.94 فیصد ہے۔ 163 آئی اے ایس عہدیداروں میں صرف 5 مسلمان ہیں۔ 112 آئی پی ایس عہدیداروں میں 2 مسلمان ہیں جبکہ 65 آئی ایف ایس عہدیداروں میں بھی صرف 2 مسلم عہدیدار ہیں۔کمیشن نے حکومت سے سفارش کی کہ وہ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اقدامات کرے۔ سدھیر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اہم عہدوں پر مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم ہے جبکہ کمتر رتبہ کے عہدوں پر زیادہ تر مسلمان ملازمت کررہے ہیں، یہ صورتحال مایوس کن ہے۔56.57 فیصد مسلمان آخری درجہ کے ملازمین ہیں۔ گزیٹیڈ عہدیداروں کی تعداد صرف 1.43 فیصد ہے اور باقی 42 فیصد نان گزیٹیڈ رتبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کمیشن نے احساس ظاہر کیا کہ حکومت کی فیصلہ سازی اور اسکیمات کے نفاذ میں مختلف طبقات شریک ہیں تاہم گزشتہ چند برسوں سے مسلمانوں کو ترقی کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سرکاری خدمات میں مسلمانوں کا حصہ کم ہوگیا۔ اڈمنسٹریٹیو سرویسیس جیسے محکمہ داخلہ، تعلیم اور سماجی بھلائی میں مسلم نمائندگی میں اضافہ کیلئے حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ اس خلاء کو پُر کرے اور ضرورت پڑنے پر تحفظات کا سہارا لیا جائے۔ کمیشن نے اقلیتی بہبود کیلئے ہر سال بجٹ میں اضافہ کا حوالہ دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ بجٹ میں اضافہ ہورہا ہے لیکن خرچ کی صورتحال مایوس کن ہے۔ 2014-15 میں 1034 کروڑ میں سے صرف 26.3فیصد خرچ کیا گیا۔ 2015-16 میں فبروری تک صرف 31.6 فیصد بجٹ ہی خرچ کیا گیا۔ کمیشن نے کہا کہ اقلیتوں کی آبادی کے اعتبار سے موجودہ بجٹ انتہائی ناکافی ہے جبکہ ایس سی، ایس ٹی اور بی سی کیلئے نہ صرف بجٹ مختص کیا جاتا ہے بلکہ ایک علحدہ سب پلان کی منظوری دی جاتی ہے۔ کمیشن نے مسلمانوں کیلئے بھی علحدہ سب پلان کی تجویز پیش کی۔ کمیشن نے فیس بازادائیگی، پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اسکالر شپ جیسی اسکیمات پر موثر عمل آوری کی ضرورت ظاہر کی۔ کمیشن نے مسلمانوں کیلئے بینکوں سے مربوط اسکیمات میں مناسب حصہ داری اور قرضہ جات کی منظوری میں مناسب ترجیح کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے سفارشات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور مجموعی طور پر ہر شعبہ میں مسلمانوں کیلئے جامع سفارشات کی گئیں۔ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے علاوہ ہاؤزنگ میں شہری علاقوں میں 12فیصد اور دیہی علاقوں میں 7 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے احکامات پر عمل آوری کی سفارش کی گئی۔ کمیشن نے اس کوٹہ کو شہری علاقوں میں 12 سے بڑھاکر 20اور دیہی علاقوں میں 10فیصد کرنے کی سفارش کی ہے۔