انگلش میڈیم میں داخلہ کو یقینی بنانے حکومت کے احکامات کے باوجود خاطر خواہ نتائج نہیں ، اساتذہ کی قلت سے داخلہ پر منفی اثر
حیدرآباد۔/4جولائی، ( سیاست نیوز) حکومت نے حیدرآباد میں سرکاری سطح پر ماڈل اسکول کا اعلان تو کردیا ہے لیکن ان ماڈل اسکولس میں اساتذہ کے تقررات کے سلسلہ میں بالکلیہ طور پر کسی قسم کے قوانین مرتب نہیں کئے گئے اور نہ ہی اساتذہ کے تقررات کو یقینی بنایا گیا ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے دور میں انگریزی میڈیم سرکاری اسکولس ( ماڈل اسکولس ) کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا اور اس منصوبہ کو قابل عمل بنانے کیلئے کروڑہا روپئے فنڈز بھی جاری کئے گئے تھے لیکن فی الحال جن اسکولوں کو بطور ماڈل اسکول فروغ دیا گیا ہے ان تمام اسکولوں میں اساتذہ و انتظامیہ داخلے کیلئے پہونچنے والے طلبہ و اولیائے طلبہ کو کونسلنگ کے ذریعہ داخلہ نہ لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ چونکہ اسکولس میں درکار تعداد میں اساتذہ کا تقرر ہی نہیں ہوا ہے۔ چارمینار و بہادر پورہ منڈل کے بیشتر ماڈل اسکولس میں ایک بھی جائیداد پر تقرر نہیں کیا گیا لیکن انتظامیہ کو یہ ہدایت جاری کردی گئی ہے کہ وہ انگریزی میڈیم کے طلبہ کے داخلوں کو یقینی بنائیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اساتذہ و اسکول انتظامیہ یہ ذمہ داری اپنے سر لینے کے موقف میں نہیں ہیں اسی لئے وہ داخلے حاصل کرنے کیلئے طلبہ و اولیائے طلبہ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر وہ داخلہ حاصل کرنے چاہتے ہیں تو وہ اردو میڈیم اسکول میں داخلہ لیں یا پھر کسی خانگی اسکول کا رُخ کریں۔ چونکہ ماڈل اسکول کے نام پر تعمیر کردہ اسکولوں میں اساتذہ کی خاطر خواہ تعداد موجود نہیں ہے اور موجودہ تعداد بھی انگریزی میڈیم سے تعلق رکھنے والی نہیں ہے۔ ان اساتذہ کے ساتھ ماڈل اسکول کے طلبہ کو انگریزی میڈیم کے ساتھ اپنے مضامین میں مہارت دلوانا موجودہ اساتذہ کیلئے ممکن نہیں، اسی لئے اساتذہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ محکمہ تعلیم کے عہدیداروں سے دریافت کرنے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس وقت یہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا اسوقت جن اسکولوں کو ماڈل اسکول کے زمرے میں شامل کیا گیا تھا ان اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرس کے اکاؤنٹ میں لاکھوں روپئے ٹرانسفر کئے گئے لیکن اندرون چند یوم یہ رقومات واپس طلب کرلی گئیں اور اس کی وجوہات سے واقف نہیں کروایا گیا۔ راجیو ودیا مشن کے تحت شروع کردہ یہ پروگرام اپنے آغاز پر ہی سرکاری اہلکاروں کی جانب سے تباہی کے دہانے پر پہنچایا جارہا ہے۔ اگر اس سلسلہ میں حکومت فوری توجہ مبذول کرتے ہوئے ماڈل اسکولس میں معیاری انگریزی میڈیم سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کا تقرر یقینی بناتی ہے تو ایسی صورت میں ماڈل اسکولس کی ترقی کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔ ایک عہدیدار نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ عموماً یہ شکایت کی جاتی رہی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں معیاری تعلیم نہ ہونے کے سبب لوگ سرکاری اسکولوں کا رُخ نہیں کرتے لیکن ماڈل اسکول کے منصوبہ کے متعلق آگہی حاصل کرنے کے بعد عوام خود سرکاری اسکولوں کا رُخ کررہے ہیں۔ لیکن اب اسکول انتظامیہ مجبور ہے چونکہ وہ عوامی توقعات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔سابقہ حکومت یا سرکاری عہدیداروں کی جانب سے پیدا کردہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوری طور پر اقدامات نہ کئے گئے تو ایسی صورت میں ماڈل اسکول کے نام پر غریب طلبہ و اولیائے طلبہ کے ساتھ سرکاری سطح پر مذاق ہوگا اور آئندہ برس ایس ایس سی نتائج پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔