انصاف کی تلوار سے محفوظ ہیں اشرار
’’بے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مناجات‘‘
سرکاری راز کا سرقہ
مرکزی ہو ریاستی سرکاری ملازمین کی کئی خرابیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی خرابی رشوت خوری ہے۔ پیسہ کے لئے یہ لوگ کوئی بھی سرکاری کام آسانی سے کرتے ہیں۔ جب کسی اہم محکمہ خاص کر مرکزی وزارتوں کے سرکاری ملازمین یا چپراسیوں کا ذکر آتا ہے تو یہ لوگ اہمیت کی حامل ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ ان ہی چپراسیوں کی مدد سے کئی سرکاری راز کا سرقہ کرنے والے کارپوریٹ اداروں اور کنسلٹنس نے سارے ہندوستان میں ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ کارپوریٹ جاسوسی اسکام کے تحت جن وزارتوں کے اہم کاغذات کے سرقہ کی اطلاعات ہیں، ان میں معاشی اہمیت کی وزارتیں مثلاً کوئلہ، پٹرولیم، برقی، وزارت فینانس اورکارپوریٹ امور کی وزارت کے نام سامنے آرہے ہیں۔ اس سنسنی خیز کارپوریٹ جاسوسی اسکینڈل میں وزارت فینانس کی بجٹ تقریر کے مسودہ کا بھی سرقہ کیا گیا اور مبینہ طور پر یہ تقریر منکشف کردی گئی۔ قومی گیس گرڈ، سے لیکر وزیراعظم کے پرنسپل سکریٹری نریندرا مشرا اور وزارت آئیل کے درمیان ہونے والی مراسلت کے نقول بھی سرقہ کرلئے گئے۔ تحقیقات کے عمل کے دوران 12 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ دہلی کا شاستری بھون اہم وزارتوں کے دفاتر و محکموں کا مرکز مانا جاتا ہے۔ اس عمارت سے کارپوریٹ گھرانوں کے چند لالچی افراد نے ایسے دستاویزات کا سرقہ کرلیا ہے جن کی مدد سے قومی اور عالمی مارکٹوں میں اپنی تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔ سرکاری دفاتر کے الماریوں میں رکھے گئے اہم دستاویزات کا حصول آسان کام نہیں ہے اور اس کے لئے چپراسیوں کو استعمال کیا گیا۔ نقلی چابیاں بنائی گئیں، سی سی ٹی وی کیمروں کو مفلوج کردیا گیا اور یہ کام بڑے پیمانہ پر ہوا ہے جو صرف چپراسیوں کی مدد کے علاوہ اس کے پیچھے اہم شخصیتوں کا بھی رول ہے۔ اس کیس میں گرفتار صحافی نے کہا کہ کارپوریٹ اسکام 10 ہزار کروڑ روپئے پر مشتمل ہے، جس میں بڑے بڑے ہاتھ ملوث ہیں۔ بڑی کمپنیوں نے حکومت کی پالیسی فیصلوں کا قبل از وقت پتہ چلا کر عالمی سطح پر جو فوائد اٹھائے ہیں وہ سراسر جرم ہے۔ اس اسکام میں تمام اہم لوگ ملوث ہیں جن کی مدد کے بغیر سرکاری رازوں کا فشاء ہونا ممکن نہیں۔ سابق صحافی سنتنو سائمکا کے مطابق اگر یہ اسکام 10 ہزار کروڑ کا ہے تو گرفتار شدہ پانچ کارپوریٹ ایگزیکیٹیو ہی اس پر پوشیدہ راز کو ظاہر کرسکتے ہیں چونکہ یہ اسکام ملک کی سیکوریٹی سے مربوط دستاویزات کے سرقہ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے اسکام میں ملوث افراد کو سخت سزاء دینے کا اعلان کیا ہے لیکن اصل مجرمین اور خاطی بچ نکلتے ہیں اور پھنسایا انہیں جاتا ہے جو کلاس فور ایمپلائز ہوتے ہیں۔ یہ اسکام کارپوریٹ گھرانوں سے لیکر بڑی بڑی وزارتوں کے ذمہ داروں سے مربوط ہے تو اس کی تحقیقات میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جانی چاہئے۔ ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے والے اس اسکام میں ملوث ان تمام خاطیوں کو منظرعام پر لانا پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے۔ ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں تجارت کا اہم رول ہوتا ہے۔ جب تاجر گھرانے ہی بد دیانتی کے ساتھ کام کریں تو معیشت کی تباہی افسوسناک حد تک سامنے آئے گی۔ ملک کے بڑے تجارتی گھرانوں نے سرکاری رازداری کا سرقہ کرکے اپنے تجارتی فوائد کو دوگنا سہ گنا کیا لیکن اس سے ملک کی معیشت پر شدید ضرب پڑ سکتی ہے۔ پولیس نے جن بڑی کمپنیوں کے اعلیٰ سینئر اگزیکیٹیوز کو گرفتار کیا ہے۔ اس میں خانگی توانائی کمپنیوں، ریلائنس انڈسٹریز، ایسیر ، کیرنس انڈیا، ریلائنس اے ڈی اے جی اور جوبلینٹ انرجی کے ایگزیکیٹیوز شامل ہیں۔ ملک کی اہم وزارتوں میں کارپوریٹ جاسوسی کا پتہ چلانے کیلئے چار ماہ طویل تحقیقات کا نتیجہ یہ نکالا ہے انٹلیجنس ایجنسیوں نے اخبارات میں شائع ہونے والی بعض راز کی باتوں کا نوٹ لیا تھا۔ قومی سلامتی مشیر اجیت دیول نے سرکاری راز کی باتیں جب اخبارات اور میڈیا میں آنے لگیں تو اس کا سخت نوٹ لیا اور انٹلیجنس ایجنسیوں کو اس کی تحقیقات کا حکم دیا۔ سرکاری دفاتر سیراز کا افشاء ہونا پورے سسٹم کی خرابی کا ثبوت ہے۔ شاستری بھون کے چپراسیوں سے لیکر اعلیٰ عہدیداروں نے اپنے تحت آنے والے دفاتر اور راز کے فائیلوں کو چند پیسوں کے عوض فروخت کیا ہے تو اسے سنگین جرم منصوبہ کرکے سخت ترین کارروائی کی جانی چاہئے۔ ویسے ہندوستان میں اس طرح کے اسکام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس طرح سرکاری رازوں کا افشا ماضی میں بھی ہوا ہے۔ خاص کر اندرا گاندھی کے دور میں بھی ہوا تھا۔ آخر میں تمام بڑے آفیسرس بچ نکلے تھے اور سزاء صرف متوسط اور جھوٹے درجہ کے عملہ کو دی گئی تھی کیونکہ جن بڑی کمپنیوں کے مالکین یا ڈائرکٹرس ہوتے ہیں وہ تمام سیاسی پارٹیوں کے بڑے فینانسر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ قانون کے شکنجہ سے آسانی کے ساتھ آزاد ہوتے ہیں۔ کوئی وزیر یا قانون کے رکھوالے اپنے فینانسر کو سزاء دینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ کارپوریٹ اسکام میں جن کمپنیوں کے ایگزیکیٹیوز کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ان کے مالکین کی گردن کو قانون کے شکنجہ لائی جاسکے گی؟