سردی کی بناء ، تیمم کرنا

حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین ، صدر مفتی جامعہ نظامیہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کی عمر چھیاسٹھ (۶۶) سال ہے، وہ صوم و صلوۃ کی بچپن سے پابند ہیں۔ حالیہ عرصہ میں بیمار ہوئی تھیں، الحمد للہ اب وہ بہتر ہیں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں ہندہ کو تیمم کی اجازت مل سکتی ہے ؟ یا پھر وضو کرنا چاہئے ؟
جواب : سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص ۱۴ میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو او زیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔
نافرمان بیوی سے متعلق چند مسائل
سوال : اگر بیوی خلاف شرع و نازیبا حرکتیں کرتی ہو اور اس کی یہ حرکتیں کسی عدالت میں ثابت بھی ہوچکی ہوں تو شرعاً اس کی کیا سزا عائدہوسکتی ہے ؟
۲۔ اور اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اپنی ماں کے گھر سے اپنے حقیقی بھائی کے سسرال میں تقریب یا ملاقات کے بہانے سے جاکر رہا کرتی ہے ، ایسی صورت میں شوہر اور بیوی کی نسبت کیا حکم ہے ؟
۳۔ اور اگر وہ اپنے شوہر سے دو ہفتوں کی اجازت لے کر اپنی والدہ کے گھر جائے اور زد و کوب کا غلط الزام لگاکر شوہر کے گھر واپس نہ آئے اور شوہر کے بلانے پر یہ جواب دے کہ میں قیامت تک نہیں آؤں گی تو اس سلسلے میں شوہر کے لئے کیا حکم ہے ؟
جواب : بیوی سے جو قصور سر زد ہوتے ہیں اگر وہ ایسے ہیں کہ جن پر حد واجب ہوتی ہے تو ان قصور کے لحاظ سے بیوی شرعاً حد کی مستحق ہے اور جن قصور کے لئے شرع میں حد نہیں ہے ان کے متعلق شوہر کو یہ حق دیا گیا ہے کہ بیوی کو تنبیہہ و تعزیر کرے۔ رد المحتار جلد ۳ صفحہ ۱۹۴ باب التعزیر میں ہے: یعزرالمولیٰ عبدہ و الزوج زوجتہ… والضابط ان کل معصیۃ لا حد فیھا فللزوج والمولی التعزیر ولیس منہ مالوطلبت نفقتھا اوکسوتھا والحث لان لصاحب الحق مقالا اور فتاوی مہدیہ جلد اول صفحہ ۴۰۶ میں ہے۔ لا نفقۃ للزوجۃ ما دامت ناشزۃ و خارجۃ عن طاعۃ الزوج بغیر حق و تؤمر بطاعتہ ولا تقر علی النشوز لانہ معصیۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں بیوی کا شوہر کے گھر سے بلا اجازت باہر جانا ، اور بلا اجازت اجنبی لوگوں کے گھر میں رہنا اور ان سے بے پردہ ہونا ۔ خاوند پر زد و کوب کی تہمت لگاکر ماں باپ کے گھر بیٹھنا اور تاقیامت آنے سے انکار کرنا ان تمام افعال کے کرنے سے بیوی نافرمان ہوتی ہے ۔ گھر میں واپس آنے تک شوہر پر اسکا نفقہ واجب نہیں اور گھر میں آنے کے بعد جبکہ شوہر کی اطاعت سے انکار کرے تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ اطاعت قبول کرنے تک غیر نقصان دہ زد کوب کرتا رہے۔کیونکہ نقصان دہ زد و کوب سے شرعاً زوج پر تعزیر واجب ہوتی ہے ۔ ردالمحتار جلد ۳ صفحہ ۱۹۵ باب التعزیر میں ہے: لان تادیبہ مباخ فیتقید شرط السلامۃ قال المصنف و بھذ ا ظھر انہ لایجب عل الزوج ضرر زوجتہ اصلا فانہ یعزر و یضمنہ لومات رد المحتار میں ہے: (قولہ ضرباً فاحشاً) قیدبہ لانہ لیس لہ ان یضربھا فی التادیب ضرباً فاحشاً و ھو الذی یکسر العظم اویخرق الجلد اویسودہ کما فی التاتارخانیہ قال فی البحر و صرحوا بانہ اذا ضربھا بغیر حق وجب علیہ التعزیر ای وان لم یکن فاحشاً۔
نافرمانی کی وجہ سے بیوی نکاح سے خارج نہیں ہوتی اور نہ مہر ساقط ہوتا ہے ۔ البتہ اگر مرتدہ ہوجائے یا اپنے سوتیلے لڑکے سے تعلق پیدا کرلے تو اس وقت مہر ساقط ہوجاتا ہے ۔ ردالمحتار جلد ۲ صفحہ ۳۳۹ میں ہے۔ وافاد ان المہر وجب بنفس العقد مع احتمال سقوطہ بردتھا او تقبیلھا ابنہ۔