سرحد سے سمندر تک کشیدگی

ایک ضرب اور بھی اے زندگی تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مری جان میں ہے
سرحد سے سمندر تک کشیدگی
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدہ تعلقات کو مزید ابتر بنانے والے واقعات میں گجرات کے ساحل کے قریب ایک کشتی کو دھماکہ سے اڑا دینے اور جموں و کشمیر سرحد پر پاکستانی رینجرس کی شلباری و فائرنگ کے ذریعہ کی جانے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں مقامی عوام کی منقسم رائے دہی سے وجود میں آنے والی معلق اسمبلی میں کسی بھی پارٹی نے اب تک حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ پیش نہیں کیا۔ بی جے پی کو قومی پارٹی کا موقف حاصل ہونے کے باوجود اس نے بھی حکومت سازی کے عمل کیلئے سرگرمی دکھاتے ہوئے گورنر سے حلف لینے کا وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ سرحدی کشیدگی نے اس ریاست کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے عوام کو نقل مکانی کیلئے مجبور ہونا پڑا ہے۔ گجرات کے ساحلی سمندر کے قریب جس کشتی کے دھماکہ سے تباہ ہونے کے واقعہ کو متضاد طریقہ سے پیش کرنے والی خبروں نے بھی ہند ۔ پاک کشیدگی میں جلن کا کام کرنا شروع کیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ کشتی ان چھوٹے اسمگلروں کی تھی جو شراب اور ڈیزل کی اسمگل کرتے تھے۔ نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن (این ٹی او) نے موبائیل فون پر کی جانے والی بات چیت کا ریکارڈ مواد حاصل کرنے یہ انکشاف کیا کہ یہ کشتی ماہی گیری بندرگاہ کے باہر کئی بندر سے اسمگلنگ کرنے والے چھوٹے اسمگلرس کی تھی لیکن اب ان چھوٹے اسمگلروں اور پاکستان میں موجود ان کے آقاؤں کے درمیان ہوئی بات چیت کے متعلق سے یہ پتہ چلایا گیا ہیکہ اس کشتی میں دہشت گرد سوار تھے جو ہندوستان میں 26/11 ممبئی دہشت گرد حملوں کی طرز پر کارروائی کرنے والے تھے۔ این ٹی آر او اور انڈین کوسٹ گارڈ کے درمیان ریڈیو مواصلات سے ملنے والی تفصیلات سے یہ اندازہ اخذ کیا گیا کہ یہ کشتی ان دہشت گردوں کو لے آرہی تھی جو پوربندر میں 26/11 واقعہ کو دوہرانے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ کشتی میں سوار ملاح نے پاکستان کے میری ٹائم ایجنسی اور فوج سے روابطہ برقرار رکھا تھا۔ چھوٹا موٹا اسمگلرس سے دہشت گرد ہونے کی کہانی تک ہر کسی نے یہ تاثر دیتے ہوئے ہند ۔ پاک کشیدہ تعلقات مزید نازک بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ سرحدی علاقہ کشمیر اس وقت مقامی عوام کیلئے جان و مال کے خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اس صورتحال پر فوری قابو پانے کیلئے حکومت ہند کو فوری حرکت میں آنے کے بجائے الزامات و جوابی الزامات یا کارروائی یا جوابی کارروائی جیسے بیانات دینے میں الجھتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ یہ بہت بڑی بری خبر ہے کہ کشمیری عوام اپنے ہی علاقہ میں پناہ گزینوں کی زندگی گذار رہے ہیں۔ حکومت کی یکسر ناکامی کے باعث جموں و کشمیر کے عوام کو مصائب کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی حکومت بھی اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات اور پشاور فوجی اسکول قتل عام جیسے سانحات پر کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ سرحدی علاقوں پر اس کی برقراری کیلئے کام کرتے ہوئے سرزمین پاکستان پر سرگرم دہشت گرد عناصر کا عرصہ حیات تنگ کرکے ان کا صفایا کیا جاتا مگر ایسا معلوم ہوتا ہیکہ حکومت پاکستان کو کسی ایک بڑی طاقت کے اشاروں پر کام کرنے کیلئے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہ برصغیر میں یہ تیسری بڑی طاقت کون ہوسکتی ہے یہ بعض فکرمند اور امن پسند افراد جانتے ہیں۔ کسی ملک کے مفادات کو ٹھیس پہنچانا اس تیسری طاقت کا ناپاک منصوبہ مقامی افراد کی مدد سے کامیاب ہوتا ہے تو یہ تمام حادثات و سانحات سے بڑھ کر ایک افسوسناک المیہ کہلاتا ہے۔ برصغیر کے یہ امن دشمن عناصر اپنے ملک اور اس خطہ کے امن پسند عوام کا سکھ چین چھین کر تیسری طاقت کو مزید مضبوط بنارہے ہیں۔ جموں و کشمیر کی بین الاقوامی سرحد سے ہونے والی شلباری کے بعد کتھوا میں 11 مواضعات سے 2500 افراد نقل مکانی کرچکے ہیں جبکہ 1800 افراد ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔ ضلع سامبا میں ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بعد سے اب تک 3,500 افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ نئے سال کے موقع پر بھی سرحد پر فائرنگ کے آوازوں کے ساتھ دو فوجی جوانوں اور ایک خاتون کو ہلاک کیا گیا تھا۔ گجرات کے ساحل سے 365 کیلو میٹر دور دھماکو اشیاء، اسمگلنگ کا سامان لانے والی کشتی کے شعلہ پوش ہونے کے واقعہ سے لیکر سرحدی کشیدگی تک پاکستان کے ملوث ہونے کی ترد ہی کی جاتی رہی ہے۔ اس ماہ 26 جنوری کے یوم جمہوریہ تقریب میں صدر امریکہ بارک اوباما کی شرکت سے قبل ہند ۔ اپک کے درمیان تعلقات کو دھماکو بنانے والے واقعات افسوسناک ہیں۔ دونوں ملکوں کو ان واقعات کے پیچھے حقائق کا پتہ چلا کر آپسی نااتفاقی اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنے اپنے مقاصد کے تحت خطہ کے امن کو درہم برہم کرنے والی کارروائیوں پر خاموشی اختیار کرلی تو یہ سب سے بڑی بھیانک غلطی ہوگی۔ حکومت پاکستان کو اس معاملہ میں ہندوستان کے ساتھ بھرپور تعاون کے ذریعہ اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے میں کامیابی کی کوشش کرنی چاہئے۔ حکومت ہند کو بھی جلتی پر تیل ڈالنے والے عناصر سے چوکس رہتے ہوئے پڑوسی ملک کیساتھ تعاون عمل کو منقطع کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔