ایک دن ایک بوڑھی عورت اپنے کھیت میں سے بندگوبھی توڑنے جارہی تھی ۔ راستے میں ایک غار تھا ۔ جس میں بارہ آدمی رہتے تھے ۔ انہوں نے بڑھیا کو بلا کر کہا ’’ بی اماں ، یہ بتاو سب سے اچھا کونسا مہینہ ہے ؟ ‘‘ ’’ سب ہی اچھے مہینے ہیں بیٹا ۔ ‘‘ بڑھیا نے کہا ’’ دیکھو تو جنوری میں سفید برف گرتی ہے ، فبروری میں بارش ہوتی ہے اور مارچ میں ہر طرح کے پھول کھلتے ہیں ۔ باقی سارے مہینے بھی بہت اچھے ہیں ۔‘‘ ’’ بی اماں ، تم نے ہم سب کی تعریف کی ، اس لئے ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں ۔ تم جانتی ہو ، ہم ہی بارہ مہینے ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے ٹوکری میں بہت سا سونا بھر کر بڑھیا کو دے دیا ۔ بڑھیا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور گھر آکر اس نے اپنے بچوں کو سونا دکھایا اور ان سے کہا ’’ اب ہم بہت امیر ہوجائیں گے ۔
دیکھو تو میں کتنا سونا لائی ہوں ۔ ‘‘ اسی وقت بڑھیا کی ہمسائی وہاں آگئی ۔ اس نے سونے کا ڈھیر دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ بڑھیا نے غار میں سے آواز آنے کی ساری کہانی ہمسائی کو کہہ سنائی۔ بڑھیا کی ہمسائی بہت لالچی عورت ھی ۔ وہ دوڑی دوڑی اس غار کے پاس گئی جس میں وہ بارہ آدمی رہتے تھے ۔ انہوں نے ہمسائی سے پوچھا ’’ بتاؤ ذرا سب سے اچھا مہینہ کونساہے ؟ ’’ ہمسائی بولی ’’ سچ تو یہ ہے کہ کوئی مہینہ بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ دیکھونا جنوری میں برف پڑتی ہے ۔ فبروری میں بارشیں شروع ہوجاتی ہیں اور اسی طرح ہر مہینے میں کسی نہ کسی وجہ سے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ مجھے تو کوئی مہینہ بھی اچھا نہیں لگتا ، کیونکہ ہر مہینے کے ساتھ ہی کوئی نہ کوئی مشکل آجاتی ہے ۔ ‘‘ ’’ آپ کا بہت بہت شکریہ : لایئے اپنی ٹوکری دیجئے ۔ ہم آپ کو انعام دیں گے ۔ ‘‘ بارہ مہینوں نے ہمسائی کی ٹوکری بھر کر اوپر سے پتے ڈھک دیئے ۔ ہمسائی ٹوکری اُٹھاکر گھر کو بھاگی تاکہ جلدی سے کھول کر دیکھے کہ بارہ آدمیوں نے اسے کیا انعام دیا ۔ جب وہ گھر پہنچی تو اس نے اپنے بچوں سے کہا اب ہم بھی بڑھیا کی طرح امیر ہوجائیں گے ۔ یہ کہہ کر اس نے ٹوکری میز پر الٹ دی لیکن ٹوکری میں سونے کی جگہ کنکر ، پتھر بھرے تھے ۔ ہمسائی بہت ناراض ہوئی اور بھاگی بھاگی بڑھیا کے پاس گئی ۔ بڑھیا نے پوچھا جب صاف کہہ دیا تھا کہ کوئی مہینہ بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ ہمسائی نے چڑکر کہا ’’ پھر ٹھیک ہے ۔ تمہارے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا ۔ بھلا کوئی اپنی برائی سن کر بھی انعام دیتا ہے ۔