مولانا غلام رسول سعیدی
ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، پاس ہی قریش کے صنادید بیٹھے آپﷺ کو ایذا پہنچانے کی تجویز سوچ رہے تھے۔ ان میں عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور عین سجدہ کی حالت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر اونٹنی کی جھلی لاکر رکھ دی۔ یہ منظر دیکھ کر وہ اشقیاء تمسخر کر رہے تھے کہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں اور اس جھلی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک سے آپ نے ہٹادیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ کر عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط ان تمام کافروں کا نام لے لے کر دعائے ضرر کی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رحمت ہیں تو یہ دعائے ضرر کیوں کی؟۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لئے اس بات پر غور فرمائیے کہ طائف کی وادی میں کفار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھروں سے زخمی کیا، غزوۂ احد میں آپﷺ کا چہرہ لہولہان کردیا۔ یہ دِلخراش منظر دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی ضبط نہ کرسکے، آپ نے کہا ’’یارسول اللہ! ان ظالموں کے لئے دعائے ضرر کریں‘‘۔ لیکن جب حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک اُٹھے تو ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے اٹھے اور فرمایا ’’اے رب العالمین! انھیں ہدایت دے‘‘۔ یہاں اتنی تکلیفوں کے باوجود دعا دے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ظاہر فرمادیا کہ ’’میری ذات کو اذیتیں دو برداشت کرلوں گا، میرے چچا کو قتل کرکے ان کا جگر تک چباڈالو صبر کرلوں گا۔ ہر ستم گوارا ہو سکتا ہے، لیکن اللہ کی عبادت میں خلل ڈالو اور نماز میں فساد برپا کرو، یہ گوارا نہیں ہوسکتا‘‘۔
حضور رحمت عالمﷺ نے امت کو جس قدر عبادت کا حکم دیا ہے، خود اس سے زیادہ عبادت کی ہے۔ چنانچہ امت کے لئے پانچ نمازیں فرض کیں اور خود چھ فرض نمازیں پڑھتے تھے۔ دوسروں کے لئے مال میں چالیسواں حصہ زکوۃ فرض کی اور خود سب کچھ صدقہ کردیا کرتے تھے۔ ہمارے لئے صرف دن کا روزہ مقرر کیا اور خود وصال کے روزے بھی رکھے، جس میں نہ سحری ہے نہ افطار۔
اللہ تعالیٰ کو اوروں سے شکوہ ہے کہ وہ قیام کم کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’آپ بہت زیادہ قیام کرتے ہیں، ذرا کم کریں‘‘۔ اسی طرح اوروں سے شکایت ہے کہ وہ راہِ خدا میں مال کم خرچ کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ’’آپ راہِ خدا میں مال بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں، ذرا کم خرچ کیا کریں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’آپ صبح اور شام نماز ادا کیا کریں، تاکہ آپ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جائیں‘‘۔ اللہ اکبر! ساری مخلوق کی عبادت یہ ہے کہ وہ خدا کو راضی کرے اور حضورﷺ کی عبادت یہ ہے کہ خدا انھیں راضی کردے۔ جب محب اپنے محبوب کو دیکھ لے تو وہ راضی ہو جاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ’’آپ نماز پڑھئے اور نماز کے دوران ہماری تجلیات کا مشاہدہ کیجئے، تاکہ آپ راضی ہوں‘‘۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نماز پڑھنے سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں‘‘۔
زیارت بھی ایک عبادت ہے، چنانچہ کعبہ اور قرآن پاک کی زیارت کرنا عبادت ہے اور سب سے بڑھ کر عبادت ایمان کی نگاہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص اب عبادت کرکے ولی اور غوث کا مرتبہ تو پاسکتا ہے، لیکن صحابیت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ غورکیجئے! جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا اتنی عظیم عبادت ہے تو رب ذوالجلال کو دیکھنا کس قدر عظیم عبادت ہوگی اور یہ ایسی عبادت ہے کہ پوری کائنات میں سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عبادت کا کوئی اور عابد نہیں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا کہ ’’احسان کس مرتبہ کا نام ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’خدا کو دیکھتے ہوئے اس کی عبادت کرنا‘‘۔ لہذا کاملین اور مقربین اس طرح عبادت کرتے ہیں کہ دورانِ نماز جمالِ الوہیت نظر میں ہوتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے: ’’آپ دورانِ عبادت حالتِ قیام میں ہوں یا حالتِ سجود میں، خدا آپ کو دیکھتا رہتا ہے‘‘۔ یعنی عبادت کے وقت تمام عابدوں کی نظریں خدا کی طرف ہوتی ہیں اور خدا کی نظر مصطفیﷺ کی طرف ہوتی ہے۔