آزادی کا جشن…کشمیری عوام محروس کیوں؟
گاؤ رکھشک اور دلت … کس کے اشارے پر
رشیدالدین
ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات کے 70 سال مکمل ہوگئے لیکن اس طویل عرصہ میں ملک کو کئی مسائل سے آزادی نہیں مل سکی۔ طویل قربانیوں اور جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947 ء کو آزادی کا سورج اس امید کے ساتھ طلوع ہوا کہ ہر ہندوستانی کی زندگی سے تاریکی کا خاتمہ ہوگا۔ 70 برس گزر گئے لیکن بعض شعبوں پر ابھی بھی گھٹا ٹوپ اندھیرا برقرار ہے۔ غربت ، بیروزگاری اور بیماری سے آزادی توکجا اس میں مزید اضافہ ہی ہوگیا۔ حقوق انسانی کے تحفظ سے لیکر دستور اور قانون کی بالادستی میں حکومتیں اور سماجی ادارے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ آزادی کے ثمرات کا فائدہ جس قدر سماج کے محروم طبقات کو ہونا چاہئے تھا ، نہیں ہوسکا۔ جب ہندوستان کے تمام علاقے ، مذاہب اور طبقات کو دستور میں مساوی حقوق دیئے ہیں تو پھر ان میں امتیازی سلوک کیوں ؟ 70 سال میں آج تک سماج سے چھوت چھات کی لعنت ختم نہیں کی جاسکی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں وقتاً فوقتاً دلت بغاوت کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سیاستدان سماج کو جوڑنے کے بجائے طبقات میں مزید پھوٹ پیدا کرتے ہوئے نئی نئی زمرہ بندی کے ذریعہ اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتے ہیں۔ مجاہدین آزادی نے بلا لحاظ مذہبی وابستگی کیا اسی لئے جانوں کی قربانی دی تھی کہ آزاد ہندوستان میں بھی ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘ کی پالیسی برقرار رہے گی۔ ہندوستان تو آزاد ہوگیا لیکن غلامی ختم نہیں ہوئی۔ ہاں غلامی کے انداز اور طور طریقے تبدیل ہوگئے۔ یوم آزادی کے موقع پر ہر سال تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے چند اعلانات ، چند نئے خواب اور الفاظ کی جادوگری کا مظاہرہ معمول بن چکا ہے۔ لال قلعہ سے خطاب کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس یادگار کو بطور امانت دینے والے حکمرانوں نے کس طرح مذہبی رواداری اور رعایا پروری کی تھی۔ لال قلعہ سے خطاب کرنا کوئی کمال بلکہ حقیقی آزادی اور حقوق فراہم کرنا اصل کارنامہ ہے ۔ یہ عجب کھیل ہے یا سیاسی مجبوری کہ جنہیں مغلوں کا نام لینا تک گوارا نہیں، وہ گزشتہ تین برسوں سے مغلوں کی یادگار سے قوم کو خطاب کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی عظمت کی نشانی ترنگا مسلمانوں کی یادگار پر لہرایا جاتا ہے ۔
دارالحکومت میں ایسا کوئی اور مقام نہیں جو ترنگا کی عظمت میں اضافہ کرسکے۔ جن کی یادگار، ترنگا کو اپنے سر کا تاج بناتی ہے ، ان کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ آزادی کے 70 سال کے موقع پر منی پور میں جہدکار خاتون آہن ایروم شرمیلا نے 16 سال طویل بھوک ہڑتال ختم کردی۔ وہ مسلح افواج کو زائد اختیارات کے قانون کی تنسیخ کی مانگ کر رہی ہے ۔ یہی قانون کشمیر میں بھی نافذ ہے۔ کیا حقیقی آزادی یہی ہے کہ مسلح افواج کے ذریعہ عوامی حقوق پامال کئے جائیں؟ کیا منی پور ہندوستان کا حصہ نہیں ؟ کیا وہاں کے عوام ملک دشمن ہیں کہ ان سے نمٹنے کیلئے سیکوریٹی فورسس کو زائد اختیارات دینے پڑے؟ جب وہ ہندوستان کا حصہ ہے تو گولی سے نہیں بلکہ میٹھی بولی سے دل جیت کر حکومت کرنی چاہئے ۔ کچھ یہی حال کشمیر کا بھی ہے، جہاں عوام سے گولی کی زبان میں بات کی جارہی ہے۔ میٹھے بول اگر دل سے ادا ہوں تو گولی سے زیادہ موثر ثابت ہوں گے۔ ہندوستان آزادی کا 70 سالہ جشن منا رہا ہے لیکن ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کے عوام حقیقی آزادی سے محروم ہیں۔ 1947 ء سے آج تک کی تفصیلات کو چھوڑیئے ، گزشتہ 35 دن سے وادی کے عوام عملاً گھروں میں قید ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ عوام کو مقید اور محروس کرتے ہوئے جشن منایا جائے؟ ملک کی تقسیم کے وقت کشمیری عوام نے ہندوستان میں برقراری کو ترجیح دی اور پاکستان میں شمولیت سے انکار کیا تھا۔ حالانکہ ان کے پاس مسلم اکثریتی علاقے کی حیثیت سے پاکستان میں شمولیت کا اختیار تھا لیکن آج تک ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ جب تک وادی میں حالات بہتر نہیں ہوتے اور عوام کو طویل قید سے آزادی نہیں ملے گی ، اس وقت تک آزادی کا جشن ادھورا رہے گا۔ کشمیر کو ملک کا اٹوٹ حصہ قرار دینے والے بتائیں کہ جسم کا ایک عضو زخمی ہو تو کیا باقی حصے چین سے رہ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ جسم کے کسی حصہ کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انسانیت، جمہوریت ، کشمیریت کے دائرہ میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ سوال یہ ہے کہ وہ کشمیر میں پہلے ان تینوں چیزوں کو نافذ کر کے دکھائیں۔ گزشتہ تقریباً 35 دن سے وادی میں نہ ہی انسانیت ہے اور نہ جمہوریت۔ کشمیریت کے جذبہ کو مقید کرتے ہوئے کشمیری عوام کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا۔ کیا انسانیت یہی ہے کہ عوام کو غذا ، پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم کردیا جائے ۔ انفارمیشن ٹکنالوجی اور ڈیجیٹل انڈیا کا نعرہ دہلی میں لگایا جاتا ہے لیکن کشمیر کے عوام سیل فون اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کشمیر کی تاریخ کا طویل ترین کرفیو کیا انسانیت ہے ؟ جمہوری اداروں اور عوامی منتخب حکومت کی آڑ میں سیکوریٹی فورسس کے ذریعہ حکمرانی کرنا کیا جمہوریت ہے ؟ مودی نے کہا کہ کشمیری عوام کو اتنی ہی آزادی حاصل ہے جتنی ہر ہندوستانی کو ہے۔ وزیراعظم آخر کس آزادی کی بات کر رہے ہیں ۔ آزادی کا زبان سے نہیں عمل سے اظہار ہونا چاہئے ۔ کشمیریت کا جذبہ اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ عوام حکومت سے غذ
ائی اشیاء کا نہیں بلکہ انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بے قصور افراد پر فائرنگ کرنے والے اور پیلٹ گن کے استعمال کے ذریعہ بینائی سے محروم کرنے والے خاطیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ نریندر مودی کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں لیاپ ٹاپ اور کرکٹ بیاٹس دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مودی جی یہ تو سامان تفریح و کھیل کود ہے۔ کشمیر کے نوجوان موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں، ان کے ساتھ کم از کم یہ مذاق نہ کیا جائے۔ صرف جذباتی تقاریر اور پارلیمنٹ میں قرارداد کی منظوری یا پھر کل جماعتی اجلاس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کشمیر کے مسئلہ پر مدھیہ پردیش میں بیٹھ کر اظہار خیال کرنے کے بجائے وزیراعظم کو کشمیر جانا چاہئے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزیراعظم کی حیثیت سے سرینگر میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے ذریعہ تمام کشمیری گروپس کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح کی پہل دوبارہ ہونی چاہئے۔ راج ناتھ سنگھ جو سرینگر کا دورہ کرچکے ہیں، حالات کی سنگینی ان کا دل اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ سخت ترین سیکوریٹی حصار میں چار دیواری میں اجلاس کر کے واپس ہوگئے۔ صورتحال پر بات چیت کیلئے چیف منسٹر کو دہلی طلب کرنے کے بجائے وزیراعظم ، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو سرینگر پہنچنا ہوگا تاکہ حقیقی صورتحال سے واقفیت ہو۔
راجناتھ سنگھ نے کشمیر کے اعتدال پسند قائدین سے بات چیت کا اعلان کیا ہے ۔ پاکستان کے بارے میں انہوں نے اٹل بہاری واجپائی حکومت کے موقف سے انحراف کرلیا۔ لاہور بس یاترا کے موقع پر اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ پاکستان سے کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔ نریندر مودی حکومت کا موقف اس سلسلہ میں برعکس ہے۔ مذاکرات ان سے کئے جاتے ہیں جن سے تنازعہ ہو۔ غیر متعلقہ افراد سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت کی نظر میں جو گروپ کٹر پسند ہیں، دراصل وہی کشمیری عوام کے حقیقی نمائندہ ہیں۔ حریت کے دونوں گروپس اور یسین ملک کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہئے ۔ سیاسی جماعتیں محض کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ وادی میں رائے دہی کی حقیقت سے حکومت اور الیکشن کمیشن اچھی طرح واقف ہیں۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اگر حقیقی معنوں میں ہوں تو رائے دہی کی اصلیت سامنے آئے گی ۔ کشمیری عوام کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے نئے انتخابات اور حقیقی نمائندوں کو اقتدار سونپنے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ وادی ملک کے دیگر حصوں سے عملاً کٹ چکی ہے۔ علاقہ پر کنٹرول کیلئے سیکوریٹی فورسس کو دشواری کا سامنا ہے ۔ آخر کیا بات ہے کہ 35 دن کے کرفیو کے باوجود عوام کا غصہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ظاہر ہے کہ کئی دہوں کا زخم اب کافی گہراچکا ہے اور معمولی علاج سے افاقہ نہیں ہوگا۔ مرکزی حکومت صورتحال کی اس سنگینی کو کم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کشمیر کے صحافیوں کے مطابق وادی میں آزادی کے بعد سے آج تک اس قدر سنگین حالات نہیں تھے ۔ نریندر مودی حکومت کو کشمیر میں اپنی حکومت بچانے کی فکر ہے کیونکہ پی ڈی پی کے ساتھ بی جے پی اقتدار میں شریک ہے۔ اگر ایسے حالات ملک کی کسی اور ریاست میں ہوتے تو کیا مرکزی حکومت خاموش رہتی؟ اتنا ہی نہیں اگر کشمیر میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی حکومت ہوتی اور 35 دن تک مسلسل کرفیو نافذ رہتا تو ابھی تک صدر راج نافذکردیا جاتا۔ گزشتہ 6 دہوں تک ناگا گروپس کو باغی کہاجاتا رہا لیکن بی جے پی کے مرکز میں برسر اقتدار آتے ہی سب سے پہلے ناگا باغیوں سے معاہدہ کیا گیا۔ جب باغیوں سے معاہدہ ہوسکتا ہے تو کشمیری تو ہندوستانی ہیں، ان سے مذاکرات کیوں نہیں ؟ نریندر مودی نے اپنے دورہ حیدرآباد کے موقع پر نئی شرانگیزی کی ہے۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں کو مشورہ دیا کہ 15 اگست سے 17 ستمبر تک ترنگا یاترا نکالیں جو انضمام حیدرآباد کا دن ہے۔ نریندر مودی کو حیدرآباد کا انضمام تو یاد ہے لیکن وہ گوا کو بھول گئے جو آزادی کے وقت پرتگال کی کالونی تھی اور اس کا انضمام حیدرآباد کے بعد ہوا۔ یہ دراصل مسلم دشمن ذہنیت نہیں تو اور کیا ہے ؟ دوسری طرف گاؤ رکھشکوں اوردلتوں کا تنازعہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ نریندر مودی کی وارننگ کے باوجود دلتوں پر حملوں کے واقعات جاری ہیں۔ مودی جن کو جعلی گاؤ رکھشک قرار دے رہے ہیں، دراصل وہ آر ایسایس کے نظریہ پر عمل پیرا ہیں۔ ملک میں ہندو راشٹر کے قیام کی کوششوں نے ان کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے۔ ایک جہاندیدہ شخصیت نے کہاکہ ملک میں ہندوتوا طاقتوں نے دستور کی کتاب کو بند کر رکھا ہے اور یہاں قانون اور دستور کے بجائے آر ایس ایس کے نظریات پر عمل کیا جارہا ہے۔ گاؤ رکھشکوں اور دلتوں کا مسئلہ ایک طرف سیاسی مقصد براری کے حصول کا حصہ ہے تو دوسری طرف ان مسائل کے ذریعہ اصل مسئلہ کشمیر سے ملک کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی بھی ایک کا ہندوستان تھوڑی ہے