سبق آموز کہانی

سبق آموز بچو اگر چہ یہ پرانی ہے
کہانی میں سناتاہوں یہ کوے کی کہانی ہے
سنا ہے پیاس کے مارے یہ کوا باغ میں آیا
اُسے معلوم تھا شائد ایک گھڑے میں پانی ہے
مگر چونچ جو ماری کہیں پانی نہیں پایا
یہی ہم سنتے آئے ہیں بزرگوں کی زبانی ہے
ذرا نظریں جو دوڑائیں اسے کنکرنظر آئے
مصائب سے نہیں ڈرنا یہی تو زندگانی ہے
اگرچیکہ خوب پیاسا تھا مگر ہمت نہیں ہاری
مسائل سے دلیروں نے کہاں پہ ہار مانی ہے
جوںہی کنکرگرائے تو اسے پانی نظر آیا
ہمیشہ شاد رہتے ہیں سیانوں کی نشانی ہے
ذرا محنت کے بدلے میںاسے پانی میسر تھا
ملیں گی منزلیں ہم کو دلوں میں گر جو ٹھانی ہے
کہانی کا سبق تم کوذرا پھر سے سناتا ہوں
مشقت کرنے والے پہ خدا کی مہربانی ہے
ظہور رضا بخاری