سال کی چال

جنوری ہے سال کا پہلا مہینہ اتنا سرد
کہر سے ہر سبز پتا ہوگیا ہے کتنا زرد
فروری دو جا مہینہ اس میں ہے میلہ بسنت
زور سردی کا گھٹے کہیے اسے پالا اڑنت
اس کے آگے مارچ دامن میں لئے باغ و بہار
پھول اور پتوں پہ بکھرا ہوا گلا البیلا نکھار
آئے گا اپریل تو موسم رہے گا خوش گوار
فصل گندم پک کے ہوجائے گی کٹنے کو تیار
جب مئی آئے گا تو بدلے گا موسم اور رنگ
دن بدن گرمی بڑھے گی اور ہوں گے لوگ تنگ
وقت کی بدلے گی جون اور آگ برسائے گا جون
اس کی گرمی سے پسینہ بن کر بہہ جائے گا خون
آئے گا جو لائی تو برسے گی بارش کی پھوہار
بعد خربوزوں کے آئے آم و جامن کی بہار
جب ہوا کم حبس زیادہ تو جان ہے اگست
چھم چھما چھم ہو اگر بارش تو اچھا ہو بہت
جس کے باعث ستمبر ھی ستمگر لگے
اس قدر بہتات مچھر کی ہو لشکر سا لگے
ماہ اکٹوبر میں ہاں کچھ زور گرمی کم رہے
دن اگرچہ گرم ہو پر رات کچھ کچھ نم رہے
آئے جب ماہ نومبر سال ختم ہونے کو ہے
شدت گرمی بھی گویا اب تو گم ہونے کو ہے
ماہ آخر سال کا جس کا دسمبر نام ہے
اس میں ہری روح کو بس کانپنے سے کام ہے
باتوں ہی باتوں میں احمد سال پورا ہوگیا
وقت جو ضائع کرے سمجھے کہ سب کچھ کھوگیا

٭٭٭٭