سال نو

ان کی ہی جستجو کا سہارا لئے ہوئے
اکثر انہیں کے سامنے سے ہم گذر گئے
سال نو
سال نو میں اگر شہریوں میں سیاسی اور اخلاقی تربیت نہیں ہوپاتی تو پھر ان پر ایسی حکومتیں نازل ہوئیں گی جن کے فیصلوں اور اقدامات سے وہ اپنی زندگیوں کو ہر روز کسی نہ کسی سانحہ سے دوچار کرتے رہیں گے۔ عالمی سطح پر سال گذشتہ نے جو ہنگامے برپا کئے ہیں ان میں امریکی صدارتی انتخاب میں غیرمتوقع طو رپر ری پبلکن پارٹی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی ہے تو ہندوستان میں نریندر مودی حکومت کی نوٹ بندی پالیسی نے سارے ہندوستان کو معیشت کے معاملہ میں بحران سے دوچار کردیا۔ ہندوستان اور بیرون ہند سیاسی تبدیلیاں انسانیت دشمن عناصر کو ناکام بنانے کیلئے کافی ثابت نہیں ہوئیں خاص کر دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کے باوجود اس لعنت کو بعض مخصوص طاقتوں نے ایک خاص طبقہ سے مربوط کرنے کی سازشیں جاری رکھی۔ مسائل کا دانشمندانہ حل تلاش کرنے کے بجائے نئے مسائل پیدا کرنے والی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود خود کو سمجھدار سمجھنے والی قومیں بھی حالات کا ادراک کرنے میں پیچھے رہ گئی خاص کر امریکہ اور ہندوستان کی قوم کا حوالہ دیا جائے تو دونوں جانب جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس کے نتائج بھی آشکار ہورہے ہیں۔ ہندوستان کے پڑوسی ملک پاکستان ہو یا چین، افغانستان ہو یا بنگلہ دیش یہ سب سیاسی، اقتصادی اور سماجی طوفان کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی سال 2016ء کی بڑی تبدیلی ہے تو یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی ایک موافق برطانوی عوام قدم سمجھی گئی۔ مسلم دنیا میں نہتے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کامیاب ملکوں نے شام میں روس کو بڑھاوا دے کر خطرناک تبدیلی کو دعوت دی ہے۔ چین کو اپنے سمندری علاقہ کے تنازعہ سے باہر نکلنے میں جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے تو شمالی کوریا نے طاقتور بم بنانے کا اعلان کرکے دنیائے امن کیلئے خطرات کے نئے محاذ کھول دیئے ہیں۔ یمن، شام میں ایران کے رول کو لیکر جو سرگرمیاں چل رہی ہیں، یہ عالم اسلام کے حق میں بہتر نہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی آبادیوں کو روکنے اقوام متحدہ کی منظورہ قرارداد کو قبول کرنے سے وزیراعظم اسرائیل کا اعلان طاقت کے محور کو ظاہر کرنے لگا ہے۔ عالمی ادارہ کی اہمیت کو صفر بنانے کی کوشش یہودی مملکت کی بڑی نازک چال ہے۔ عالمی سطح کی ان تمام سرگرمیوں سے ہٹ کر ہندوستان نے بھی اپنی عالمی ڈپلومیسی کو مؤثر بنانے کی کوشش کی مگر نریندر مودی حکومت کی داخلی ڈپلومیسی خاص کر نوٹ بندی نے سارے ملک کو کرنسی بحران سے دوچار کردیا۔ مودی حکومت میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدگی کی نئی سطح کو پہنچا دیا گیا تو جموں و کشمیر میں خون ریز واقعات نے سال 2016ء کو لہولہان کردیا۔ ایک طرف انسانی جسموں سے خون بہایا گیا تو دوسری طرف شہریوں کے جیبیں خالی کردی گئیں۔ یہ ایسی تبدیلیاں ہیں جو بہرصورت بہتری کی دعویداروں نے عوام کو یکلخت گمراہ رکھا۔ رشوت کے خاتمہ کے نام پر گذشتہ 50 دن کے دوران ہندوستان بھر میں طوفان بدتمیزی برپا کی گئی۔ اس پر عوام الناس کا صبرآزما مطاہرہ قابل ستائش رہا۔ اب عوام کو اسی رشوت کے خلاف جنگ کے نام پر بے نامی جائیدادوں کی ضبطی کی خبریں سنائی جارہی ہیں۔ اگر کوئی حکومت یا حکومت کا سربراہ عوام پر احسانات کرنے کے بجائے ان پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوجائے تو اس کے نتائج بھی عوام کی مٹھی میں محفوظ رہ جاتے ہیں۔ بہترین سرکاری نظام وہی ہوتا ہے جس میں ہر شہری کو راحت نصیب ہوجائے لیکن سال 2016ء نے ہندوستانیوں کیلئے ایک ایسی انمٹ یادوں کا مجموعہ دیدیا ہے جس کے ذریعہ وہ خود کے فیصلہ پر نظرثانی کریں تو پھر ان پر اس سے زیادہ بھیانک عتاب نازل کیا جاسکتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہیکہ ہندوستانی عوام کے شعور کو غیرمحسوس طریقہ سے کمزور بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندوستانی عوم کو مالیاتی طور پر توڑنے کی جو حکمت عملی بنائی گئی تھی اس کا اہم ترین پہلو شہریوں کو کیاش لیس کرنا تھا۔ بہرحال سال 2016ء نے جو تلخ واقعات کو جنم دیا ہے یہ سال 2017ء کا بھی تعاقب کرتے ہیں تو نیا سال بھی عالمی سطح سے لیکر قومی سطح پر کسی خاص بہتری کا ضامن بن سکے گا یہ کہنا مشکل ہے مگر امید تو یہی کی جانی چاہئے کہ عوام نے جو تجربہ حاصل کیا ہے اس سے مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ نیا سال 2017ء میں توقع کی جاتی ہیکہ رقم کی سربراہی کو معمول پر لایا جائے گا۔ آنے والے مالیاتی ماہ مارچ کے آغاز تک بینکوں اور اے ٹی ایمس کے باہر طویل قطاریں ختم ہوجاتی ہیں تو کرنسی کی صورتحال مستحکم ہونے کی امید پیدا ہوگی۔ کرنسی کی منسوخی کا فیصلہ ایک بڑی تبدیلی ہے اگر اس کے نتائج حکومت کے منصوبوں کے مطابق مثبت ہوں تو بینکوں میں رقومات جمع کرانے کا عمل بحال ہوگا اور ڈیجیٹل لین دین سے عوام استفادہ کرنے کی عادت ڈال لیں گے۔
اروناچل پردیش میں افسوسناک تبدیلی
اروناچل پردیش کی 60 رکنی اسمبلی میں سیاسی کھیل کو نچلی سطح تک لے جانے میں کامیاب ہونے والی قومی حکمراں پارٹی بی جے پی کو اگرچیکہ اقتدار حاصل ہوجائے گا مگر سیاسی اخلاقیات کی نعش پر وہ اقتدار کے پایہ کتنے دن تک برقرار رکھے گی یہ وقت ہی بتائے گا۔ اروناچل پردیش میں چیف منسٹر ہیماکھنڈو کے ساتھ 33 ارکان اسمبلی نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہ ارکان پیپلز پارٹی آف اروناچل (پی پی اے) کے ساتھ غداری کررہے ہیں یا اپنی انحراف پسندی کی عادت کا اعادہ کررہے ہیں۔ اس طرح کی غیرمتوازی موقف کی حامل سیاسی قیادت ریاست کیلئے فال نیک ثابت نہیں ہوگی۔ پیپلز پارٹی آف اروناچل نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ اس نے اس کی حکومت کا ہائی جیک کرلیا ہے۔ واضح رہیکہ ہیماکھنڈو اور ان کے حامی دراصل کانگریس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گذشتہ سال ان تمام نے کانگریس کو خیرباد کرکے پی پی اے کو اپنی ٹرانزٹ منزل بتایا اور اب بی جے پی کے منصوبوں کے مطابق اس کے کیمپ میں شامل ہوگئے۔ سیاسی طرفداری کی خراب مثال اس سے پہلے بھی قائم کی گئی تھی۔ ان ارکان نے قبل ازیں اس وقت کے پی پی اے چیف منسٹر کالیکھو پاول کو دھوکہ دیا اور 13 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد کانگریس میں واپس ہونے کے دو دن بعد ان لوگوں نے کانگریس کے چیف منسٹر کالیکھو پاول کو ہٹاکر ہیماکھنڈو کو اپنا لیڈر بنایا  اس مرتبہ ایک بار پھر ان ارکان نے دھوکہ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس طرح کی دل بدلی کی سیاست پر عمل پیرا ہونے کے بعد عوام ان پر اعتماد کرسکیں گے۔ یہ آنے والے دنوں میں واضح ہوگا۔ بی جے پی میں شمولیت کے بعد آسام کے بعد اروناچل پردیش شمال مشرق کی دوسری ریاست ہوگی، جہاں بی جے پی کا اقتدار ہوگا، جس شرمناک طریقہ سے بی جے پی انحراف پسندی کی سیاست کو ہوا دے رہی ہے یہ جمہوری نظام کیلئے کاری ضرب ہے۔ ایسی سیاسی بددیانتی کا انجام ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کی ہی طرح ہوسکتا ہے۔ بحیثیت قومی پارٹی بی جے پی کیلئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ عقبی راستوں کا استعمال کرکے اقتدار حاصل کرے۔