ساری خوشیاں ’’ ماں ‘‘ سے ہے

مہتاب اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ اس کے والد فوت ہوچکے تھے ۔ مہتاب کی ماں نے لوگوں کے گھروں میں برتین دھو دھوکے مہتاب کی ہر خوشی پوری کی اور اسے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی ۔ وقت نے پلٹا کھایا ۔ اب مہتاب ایک خوبصورت جوان بن چکا تھا اور اس کی ماں کمزور نظر آنے لگی اور بیمار رہنے لگی ۔
وہ اپنی بیماری کے باوجود بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ، محلے کے کچھ لوگوں نے اس کے گھر کی حالت دیکھتے ہوئے مہتاب کو سمجھانے کی کوشش کی جوان بیٹے کے ہوتے ہوئے ماں محنت مزدوری کرے یہ اچھی بات نہیں ہے ۔ مہتاب کو یہ نصیحت سخت ناپسند لگی کیونکہ وہ آزاد خیال لڑکا تھا وہ سارا دن گھر سے باہر رہتا اور دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا ۔ آدھی رات کو گھر لوٹتا ۔ گھر دیر سے آنے کی وجہ سے وہ ماں سے الجھ پڑتا اور ذرا ذرا سی بات پر گھر میں توڑ پھوڑ شروع کردیتا ۔ جب اس کی ماں کو اصل حقیقت کا پتہ چلا کہ اس کا بیٹا جسے اس نے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی اور غربت کے باوجود اس کی ہر خوشی پوری کی تھی ۔ وہی مہتان اس کا بیٹا برے لوگوں کے جال میں پھنس چکا ہے تو وہ اسی صدمے میںچل بسی ۔ جب اس رات مہتاب گھر میں آیا تو ماں دم توڑ چکی تھی ۔ اب مہتاب کو ماں کے مرنے کے بعد ماں کی کمی محسوس ہوئی ۔ کاش !کہ میری ماں پھر سے زندہ ہوجائے اور میں دنیا کی ساری خوشیاں اس کے قدموں تلے نچھاور کردوں مگر اب یہ ناممکن تھا اور اب پچھتاوے کے سواء کچھ نہ تھا ۔