ایک جھیل کے کنارے سارس غذا کی تلاش میں آیا اسے وہ جگہ بہت اچھی لگی ۔ تھوڑے دنوں میں وہاں کے دیگر پرندے اور جانور بھی اس سے مانوس ہوگئے ۔ ان ہی میں ایک کچھوا بھی تھا ۔
یوں تو سارس کی سب ہی سے اچھی بنتی تھی ۔ مگر کچھوے سے اس کی دوستی گہری ہوتی گئی وہ دن بھر ساتھ ساتھ رہتے کچھوا اکثر سارس کو اُڑتا دیکھ کر خوش ہوتا اور کہتا کاش میں بھی اڑسکتا میرے بھی پر ہوتے سارس اسے سمجھاتا کہ اللہ کا شکر ادا کر و اس نے ہر جانور میں الگ الگ صلاحیتیں اور خصوصیات رکھی ہیں ۔ کچھوا بولا ، تم تو فضاؤں میں بھی اڑسکتے ہو اور زمین پر بھی چل سکتے ہو ، پھر میں کیوں نہیں اڑسکتا ‘‘ ۔ سارس نے اسے سمجھایا ’’ دیکھو بھائی کچھوے تم سمندر کی تہہ تک جاسکتے ہو ۔ مگر میں نہیں جاسکتا ‘‘ ۔ ’’ مگر میں کچھ نہیں جانتا میں اڑنا چاہتا ہوں ، کیسے بھی ہو ‘‘ کچھوا اپنی ضد پر قائم تھا ۔ سارس نے جب دیکھا کہ کچھوا اس کی بات سمجھنے کیلئے تیار نہیں تو مجبور ہوکر سارس نے کہا ’’ اچھا تو تیار ہوجاؤ میں تمہیں اڑا کر لے جاتا ہوں تم ایسا کرو میرے پیر اپنے منہ سے پکڑ لینا یاد رکھو منہ سے کچھ نہ بولنا ورنہ نیچے گرجاؤ گے ۔ کچھوا خوشی خوشی راضی ہوگیا ۔ پھر اس نے ویسے ہی کیا جیسا سارس نے کہا تھا وہ دونوں ہوا میں اڑنے لگے ۔ فضاؤں میں اڑتے کچھوے کو بڑا مزا آرہا تھا وہ نیچے دیکھ کر خوب لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ ایک مقام پر بہت سارے بچے کھیل رہے تھے جب سارس کا ادھر سے گذر ہوا تو ایک بچے نے انہیں دیکھا اور سب کو ان کی طرف متوجہ کیا ۔ وہ دیکھو اوپر کچھوا اڑ رہا ہے ۔ کچھوا یہ سن کر اترانے لگا اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ، دیکھ لو میں بھی اڑسکتا ہوں ۔ بس یہ کہنا تھا کہ کچھوا قلابازیاں کھاتا زمین پر جاگرا ۔ وہ بری طرح زخمی ہوگیا ۔ فضا میں سارس کچھوے کا انجام دیکھ کر بہت دکھی ہوا پھر وہ اس جھیل سے کوچ کر گیا کہ اسے اپنے دوست کی یاد آتی رہے گی ۔