ڈھاکہ۔ یکم؍فروری (سیاست ڈاٹ کام)۔ حکومت بنگلہ دیش نے اپوزیشن قائد سابق وزیراعظم بنگلہ دیش خالدہ ضیاء کے مکان و دفتر کو برقی سربراہی بحال کردی۔ ایک دن قبل ان کی برقی سربراہی منقطع کی گئی تھی تاکہ وہ 72 گھنٹے طویل ملک گیر ہڑتال منسوخ کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ برقی سربراہی خالدہ ضیاء کی رہائش گاہ و دفتر واقع علاقہ گلشن کو منقطع کردی گئی تھی جہاں وہ ملک گیر ٹرانسپورٹ ناکہ بندی کے وقت سے جس کا آغاز جنوری کے اوائل میں ہوا تھا، نظربند ہیں۔ کل رات دیر گئے ان کی برقی سربراہی منقطع کردی گئی جو 20 گھنٹے بند رہی، لیکن انٹرنیٹ، کیبل ٹی وی اور ٹیلی فون خدمات اب بھی بند ہیں۔ سابق وزیراعظم کے ایک قریبی ساتھی نے ایک پریس کانفرنس میں اس کی اطلاع دی۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی صدر نے آج سے 72 گھنٹے طویل ہڑتال کا اعلان کیا ہے تاکہ تازہ انتخابات کے مطالبہ پر زور دیا جاسکے جس کی وجہ سے ایس ایس سی امتحانات ملک گیر سطح پر ملتوی کردیئے گئے ہیں۔
برقی سربراہی منقطع کرنے پر بی این پی کے کارکن برہم ہوگئے اور انھوں نے ساحلی شہر چٹگانگ کے جنوب مشرقی اور شہر سراج گنج کے شمال مغربی علاقہ میں واقع سرکاری برقی توانائی ترقیاتی بورڈ کے دفاتر پر حملے کئے۔ خالدہ ضیاء کے حامی وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کی پہلی سالگرہ سے حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے ان عام انتخابات کا جن کے نتیجہ میں شیخ حسینہ کی پارٹی برسراقتدار آئی ہے، بائیکاٹ کیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ رائے دہی میں دھاندلیاں کی جارہی ہیں۔ بی این پی نے 15 لاکھ اسکولی طلبہ کے والدین سے جو ایس ایس سی امتحانات میں شرکت کررہے ہیں،
اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو امتحانات میں شرکت سے روکیں۔ ملک گیر سطح پر ہڑتال اور ناکہ بندی کی آڑ میں غیر انسانی حرکات ہورہی ہیں۔ مرکزی وزیر تعلیم نور الاسلام ناہید نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہمارے طلبہ کو ایسے تشدد میں جھونک نہیں سکتے اور اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار نہیں کرسکتے، اس لئے امتحانات ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ بی این پی زیر قیادت 20 سیاسی پارٹیوں کے اتحاد نے پُرتشدد ناکہ بندی ختم کرنے کی اپیل مسترد کردی ہے۔ 69 سالہ خالدہ ضیاء اپنے دفتر میں نظربند ہیں۔ انھوں نے دھمکی دی تھی کہ حکومت کے خلاف اپنے حامیوں کے احتجاجی جلوس میں شرکت کریں گی۔ انھوں نے کہا کہ فتح حاصل ہونے تک موجودہ ناکہ بندی اور ہڑتال جاری رہے گی۔
دریں اثناء ان کے بیٹے کا بھی انتقال ہوگیا تھا، لیکن انھوں نے اپنی ہڑتال جاری رکھی اور تعزیت کے لئے آنے والی وزیراعظم بنگلہ دیش کو بھی جھڑک کر واپس کردیا تھا۔ وہ تازہ انتخابات کے مطالبہ پر اپنے دباؤ میں شدت پیدا کرتی جارہی ہیں۔ ہڑتال پُرتشدد ہے اور ناکہ بندی کے نتیجہ میں دو مشتبہ افراد کی گزشتہ چوبیس گھنٹے میں موت واقع ہوچکی ہے۔ ان میں سے ایک مبینہ طور پر بی این پی کی اہم حلیف جماعت اسلامی کا کارکن تھا۔ پولیس کے بموجب میرپور کے علاقہ میں کل رات فائرنگ کے نتیجہ میں اس کی موت واقع ہوئی۔ بی این پی کے حامیوں نے بسوں، لاریوں اور مال بردار بحری جہازوں پر حملے کئے جن میں کم از کم 10 افراد زخمی ہوگئے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور سیول سوسائٹی کے ارکان کے بموجب موجودہ بے چینی بنگلہ دیش کو سیاسی ویرانے میں دھکیل رہی ہے۔ نامور ماہر دستور سوادھین ملک نے حکومت سے خواہش کی کہ زیادہ طاقت استعمال کرے، ورنہ انھیں ہنگامی حالات کا اعلان کرنا پڑے گا۔ برسراقتدار عوامی لیگ کے قائد سرنجیت سین گپتا نے کہا کہ حکومت متبادل دستوری طریقوں سے صورتِ حال سے نمٹے گی۔