!سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے آبائی مکان پر کمرشیل کامپلکس

مرکزی و ریاستی حکومتوں کی خاموشی، نواسے سلمان خورشید کو نانا کے آبائی مکان سے کوئی دلچسپی نہیں

حیدرآباد ۔ 22 فبروری ۔ جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے مجاہدین آزادی کا ہمارے ملک میں بہت احترام کیا جاتا ہے۔ جو گذر چکے ہیں ان کی یاد میں مختلف مقامات پر ان کے مجسمے نصب کئے گئے ہیں۔ عملی تہذیبی و ثقافتی مراکز اور سرکاری اسکیمات کو ان سے معنون کیا گیا ہے۔ سڑکوں، علاقوں اضلاع کو ان کے نام دیئے گئے ہیں۔ ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹس جاری اور ایوارڈس تک قائم کئے گئے۔ یہاں تک کہ ان کی یوم پیدائش اور یوم وفات بھی بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے جبکہ بقیدحیات مجاہدین آزادی کی غیرمعمولی پذیرائی کی جاتی ہے۔ ان کے خاندانوں سے مثالی سلوک روا رکھا جاتاہے، انہیں زندگی کی ہر سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ہندوستان دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں بیشتر مجاہدین آزادی و قومی قائدین کے مکانات کو یادگاروں اور میوزیمس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہندوستان کے تیسرے صدر جمہوریہ اور فرزند دکن ڈاکٹر ذاکر حسین 8 فبروری 1897 کو حیدرآباد کے تاریخی محلہ بیگم بازار میں پیدا ہوئے اور 72 سال کی عمر میں 3 مئی 1969 کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے آبائی مکان کو کسی حکومت نے بھی ایک تاریخی یادگار اور میوزیم میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی خاموشی و بے حسی کے ذریعہ اسے فروخت کرنے کی راہ ہموار کی۔ بیگم بازار مچھلی بازار کے بالکل قریب خشک میوہ جات کی مارکٹ میں واقع 495 مربع گز اراضی پر محیط اس تاریخی مکان جہاں بھارت رتن ڈاکٹر ذاکر حسین پیدا ہوئے تھے اور ان کے بچپن کا کچھ حصہ یہاں گذرا تھا۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ سنجے کمار بھائی اور اجئے کمار بھائی اس عمارت کو منہدم کرکے ایک کمرشیل کامپلکس تعمیر کرنے کے خواہاں ہیں اور اس کیلئے ان لوگوں نے کچھ عرصہ قبل اس کے کچھ حصوں کو منہدم کرنے کی کوشش کی لیکن مقامی عوام کی مداخلت پر انہدام کو روک دیا گیا۔ فن تعمیر کی شاہکار اور چوبی نقش گار سے آراستہ اس عمارت کے بارے میں مقامی عوام کا کہنا ہیکہ یہ تاریخی آثار میں شمار کی جاسکتی ہے لیکن بھائی برادران اپنے اثر و رسوخ کے ذریعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیامگاہ کو تاریخی آثار قرار دینے سے روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ مقامی افراد کا یہ کبھی کہنا ہیکہ حکومت کا کوئی ادارہ بشمول محکمہ آثار قدیمہ کے عہدیدار اس عمارت کی جانب پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ بتایا جاتا ہیکہ 1989 میں اس عمارت کی تزئین نو بھی کی گئی۔ عمارت کے بیرونی حصہ میں 8 ملگیات ہیں۔ بلدی نمبر 15-6-214 کی حامل اس عمارت کے دو کرایہ داروں کا کہنا ہیکہ وہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی اس قیامگاہ کو کسی میوزیم میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اگر حکومت اسے تاریخی آثار قرار دیتی ہے یا وہاں کوئی یادگار قائم کرتی ہے تو آدھے گھنٹے میں وہ اپنی ملگیات خالی کردیں گے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے آبائی مکان سے بالکل قریب بہادر یار جنگ ؒ کا مکان ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم چونکہ ایک علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے اس عمارت کو علمی مرکز میں تبدیل کیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کا خاندان قائم گنج سے حیدرآباد منتقل ہوا تھا۔ ان کی عمر 10 سال تھی کہ والد فدا حسین چل گئے اور 14 برس کے ہوئے تھے کہ ماں نازنین بیگم بھی چل بسیں۔ لیکن 7 بھائیوں بشمول ذاکر حسین نے ہمت نہیں ہاری بلکہ حصول علم کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ چنانچہ مظفر حسین خان نے حیدرآباد میں ہی قانونی شعبہ میں اپنا کیریئر بنایا اور 28 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ عابد حسین خاں کم عمری میں ہی انتقال کر گئے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کا تیسرا نمبر تھا۔ ایک اور بھائی زاہدحسین خاں کا بھی کم عمر میں انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر رہے اور بعد میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر بنائے گئے۔ ایک اور بھائی جعفر حسین خان کا پلیگ سے متاثر ہونے کے نتیجہ میں انتقال ہوا۔ دوسرے بھائی ڈاکٹر محمود حسین خاں 1960 تا 1963 ڈھاکہ یونیورسٹی اور 1971 سے اپنی موت 1975 تک ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کے آبائی مکان سے غفلت کے معاملہ میں جہاں حکومتیں ذمہ دار ہیں وہیں خود ان کے نواسے مرکزی وزیرخارجہ سلمان خورشید بھی اپنا دامن نہیں بچا سکتے۔ وہ حیدرآباد تو آتے ہیں لیکن انہیں اپنے مرحوم نانا کے آبائی مکان کو دیکھنے اس کا جائزہ لینے کی فرصت نہیں ملی۔ abuaimalazad@gmail.com