عام آدمی کی خاص بات
سائیکل پر روزانہ 15 کلومیٹر کے سفر سے پان کی فروختگی
مکہ مکرمہ جانے کا عزم ، 69 سالہ سید عمر کا جذبہ ، دیگر کے لیے قابل غور و فکر
حیدرآباد ۔ 25 ۔ ستمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : ایک ایسے ضعیف شخص جو عمر اور زندگی کے ایسے موڑ پر ہیں جہاں انہیں آرام اور سکون کی ضرورت تھی ۔ مگر اپنی زندگی کی 69 ویں بہار دیکھنے کے باوجود وہ روزانہ جل پلی سے پیٹلہ برج اور دیگر علاقوں تک سیکل پر پھر پھر کر کاروبار کرتے ہیں اور اس قدر سخت محنت و مشقت کے بعد بڑی مشکل سے انہیں یومیہ 50 تا 60 روپئے کی آمدنی ہوپاتی ہے ۔ اس قدر قلیل آمدنی کے لیے اتنی سخت محنت ؟ اور وہ بھی اس عمر میں ؟ ایک سوال پر وہ مسکرائے اور کہا ’ بیٹا میں یہ محنت صرف اپنی بھوک مٹانے یا زندگی گذارنے کے لیے نہیں کررہا ہوں بلکہ میں ایک ایک پیسہ جوڑ کر مکہ جانے کی خواہش رکھتا ہوں ‘ ۔ ان کا یہ جذبہ اور ان کا یہ حوصلہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی ۔ مزید تفصیلات جاننے پر انہوں نے کہا کہ میرا نام سید عمر ہے اور عمر 69 برس ہوچکی ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی پیدائش پرانا پل علاقہ میں ہوئی اور ابھی وہ جل پلی میں واقع اپنے ذاتی مکان میں رہتے ہیں ۔ قوت سماعت میں کمی کے شکار سید عمر نے کہا وہ دو بھائی تھے تاہم ایک بھائی کا انتقال ہوچکا ہے ۔ اس سے پہلے وہ کارچوب کا کام کرتے تھے تاہم اس کام میں بینائی کا مسئلہ پیدا ہورہا تھا جس کے بعد وہ کام انہوں نے چھوڑ دیا اور گذشتہ 15 سال سے اپنی 35 سالہ قدیم سائیکل پر پان کی دو ٹوکری رکھ کر پان فروخت کررہا ہوں ‘ ۔ موصوف حسینی علم میں مخصوص مکانوں میں کھٹکا مار کر انہیں پان فروخت کررہے تھے ۔ ان کی اولاد کے بارے میں جاننے پر انہوں نے کچھ کہنے سے انکار کردیا اور کہا ہماری اولاد کے بارے میں کوئی سوال مت پوچھو ! وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ خوش ہے ۔ دوسرا سوال کیا تو انہوں نے کہا وہ روزانہ اپنے ساتھ ٹفن باکس رکھ لیتے ہیں اور کسی مسجد میں نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد کھانا کھالیتے ہیں ۔ عام طور پر نماز ظہر پیٹلہ برج مسجد کے پاس ادا کرتا ہوں ۔ جب کہ عصر اور مغرب الگ الگ مسجدوں میں پڑھ لیتا ہوں البتہ عشاء کی نماز گھر کے پاس موجود مسجد میں ادا کرتا ہوں ۔ اپنی زندگی اور اپنے اصول سے مطمئن سید عمر نے بتایا کہ اللہ کے فضل سے نہ انہیں بی پی ہے اور نہ شوگر کی بیماری البتہ گھٹنوں میں درد رہتا ہے ۔ اس لیے چلتے چلتے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جاتا ہوں ۔ تھوڑا آرام ملتا ہے تو پھر اپنے سفر پر رواں دواں ہوجاتا ہوں اور بس اسی طرح زندگی گذر رہی ہے ۔ بس ان کی خواہش ہے کہ ایک بار وہ مکہ شریف جائیں ہم نے بھی اس یقین کا اظہار کیا کہ انشاء اللہ اللہ تبارک و تعالی اپنے حبیب پاک کے صدقے میں ان کی خواہش ضرور پوری ہوگی ۔ اسی دعائیہ کلمات کے ساتھ ہم اپنے دفتر کی طرف اور وہ اپنے کاروبار کے لیے آگے بڑھ گئے ۔۔