سائنسی تحقیقات، قرآنی اشارات سے مدد، تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کے فروغ پر زور

دفتر سیاست میں سائنس فیئرکی تقریب،جناب عامر علی خاں اور قاضی سراج اظہر کا خطاب
حیدرآباد 15 جنوری (سیاست نیوز) سائنسی تخلیقات، تحقیقات، زمین کی گردش، سورج / چاند گہن، انقلابات جیسے تمام عنوانات آپ کو قرآن میں ملیں گے۔ قدرت نے انسان کو جتنے عضو دیئے وہ تمام کارآمد ہیں کسی ایک کو غیر اہم نہیں مانا جاتا۔ سائنسی علوم کا جز قرآن سے ملتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر سیاست نے یہاں محبوب حسین جگر ہال میں سائنس فیر اکیڈیمی کی تقریب میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے کیا اور کہاکہ سمندر کی تہہ میں آپ کو کئی قیمتی اشیاء ملتی ہیں پٹرول کے علاوہ کئی میٹریل دستیاب ہیں جو نہایت قیمتی ہیں۔ موتیاں سمندر کے اندرونی حصہ میں چھپی ہوتی ہیں، ان کو تحقیق کرکے تلاش کیا جارہا ہے۔ اُنھوں نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہاکہ آپ کسی عنوان پر گوگل پر معلومات تلاش کرسکتے ہیں، اس کے ذریعہ تحقیقات میں مدد لی جاسکتی ہے۔ سورہ یٰسین میں زراعت سے متعلق تحقیقات کا حکم چار دفعہ آیا ہے۔

سائنس زرعی شعبہ میں کافی ترقی کی ہے اور اس سے کاشتکاری میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ جانور سے صرف دودھ، گوشت یا چمڑہ نہیں نکالا جاتا بلکہ اس کے سینگ اور ہر عضو کو سائنس نے قابل استعمال بنادیا ہے۔ مگر بعض مخصوص قسم کے بکروں میں جو غدود ہوتے ہیں ان میں کمیاب بکروں میں ایک عجب غدود ہوتا ہے جو نہایت قیمتی ہوتا ہے اس سے دیہی عوام واقف ہیں۔ اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ حکومت زرعی اشیاء، وٹرنری اور سائنسی تحقیق کیلئے کافی ہمت افزائی کررہی ہے۔ اس سے بھرپور استفادہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر قاضی سراج اظہر (امریکہ) جو سائنس فیر اکیڈیمی کے ہندوستان میں قیام کے محرک ہیں، اپنے کلیدی خطبہ میں کہاکہ سائنس فیر اور سائنس اگزیبیشن میں کافی فرق ہے۔ آج تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں ہورہی ہیں، میموری کی بجائے پراجکٹ اور سرگرمیاں Activity پر مبنی نصاب بنایا گیا۔

آج طالب علم سے زیادہ استاد کو سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں قدیم طریقہ نصاب اور نظام ہے۔ نفسیات جو ٹیچر ٹریننگ کا لازمی مضمون ہے اُنھوں نے اس مضمون کو بدلنے کی زبردست وکالت کرتے ہوئے دلائل پیش کئے اور کہاکہ آج تعلیمی نفسیات بچوں کی نفسیات کے بجائے نیورو سائنس آچکی ہے۔ امریکہ میں عام ہے۔ ہندوستان میں اس کو لازمی مضمون بنایا جائے۔ مادری زبان میں تعلیم کا حصول مسلمہ حیثیت ہے۔ سائنس جو تعلیمی نصاب کا اہم مضمون ہے اس میں تحقیقی صلاحیت کو اسکولی سطح پر اُبھارنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ جو روایاتی تعلیمی اور سائنسی نمائش اسکولوں میں ہوتے ہیں ان میں صرف ماڈل پیش کئے جاتے ہیں جبکہ سائنس فیر میں طالب علم خود پراجکٹ تیار کرتا ہے اور ریسرچ کرتے ہوئے اچھا سائنٹسٹ بن سکتا ہے۔ امریکہ کی ترقی صرف سائنس کی مرہون منت ہے جہاں حکومت سنجیدہ ہے لیکن عوام بے حس ہے۔ سائنس کی تحقیق کا کام سال بھر جاری رہتا ہے۔ اُنھوں نے مسلم طلبہ پر زور دے کر کہاکہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو تحقیق کے ذریعہ اُبھاریں۔

ڈاکٹر معین انصاری (امریکہ) نے سائنس فیر کے انعقاد کو خوش آئند علامت قرار دیتے ہوئے اس کو وسعت دینے کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر حنفی نے کہاکہ ہندوستان میں سائنس فیر کیلئے ڈاکٹر سراج اظہر کی مساعی گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے جو ٹامل ناڈو اور کیرالا میں وسعت پائی۔ آندھراپردیش اور حیدرآباد میں اس کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر سمیع اللہ خان جنرل سکریٹری نے خیرمقدم کیا۔ ڈاکٹر سید غوث الدین سابق مشیر یونانی حکومت آندھراپردیش نے پروگرام کے انعقاد کے مقاصد بتائے۔ عبداللطیف عطیر نے پراجکٹ پیش کرنے والوں کی زمرہ بندی کرتے ہوئے انعامات کے لئے پیش کیا۔ ججس کے پیانل نے 15 پراجکٹ کے منجملہ 3 پراجکٹ کو انعام کا مستحق قرار دیا۔ جو فاطمہ شمس، سیدہ فاطمہ اور اومکار نے حاصل کیا۔ تمام شرکاء کو سرٹیفکٹ عطا کئے گئے۔ ایم اے حمید کرئیر کونسلر سیاست نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ اس موقع پر سائنس فیر اکیڈیمی کے عہدیداران نسرین فاطمہ، احمد صدیقی مکیش موجود تھے۔ دیگر ذمہ دار اسحق احمد حرا ماڈل اسکول نرمل، طاہر فراز، سید سادات، احمد بشیرالدین فاروقی، عابد صدیقی، حامد کمال موجود تھے۔ آخر میں مظفر علی ساجد نے شکریہ ادا کیا۔