ہے اقتدار اگر زہر تو اسے پینے
ہر ایک شخص ہے بیتاب پھر نہ جانے کیوں؟
زہر کی کھیتی
لوک سبھا انتخابات سے قبل سیاسی پارٹیوں کے درمیان خاص کر حکمران جماعت کانگریس اور حزب اختلاف کی پارٹی بی جے پی میں لفظی جنگ کا سلسلہ شروع ہونا فطری امر ہے۔ تو پھر عوام کو اس پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے آنے والے انتخابات تک انتخابی مہم کی شدت کس سطح تک پہنچے گی، اس پر دھیان دیا جائے تو قائدین نے سوال اور جواب پہلے ہی تیار کرلیا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے تعلق سے کچھ حلقے بین السطور باتیں بہت پہلے سے کررہے ہیں۔ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے بھی جلسہ عام کے دوران بی جے پی خاص کر نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے میں کوئی موقع ضائع نہیں کررہی ہیں۔ بی جے پی اور مودی کو ’’زہر کی کھیتی‘‘ قرار دینے پر جواب میں نریندر مودی نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے ملک میں زہر پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ بیانات کے ذریعہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اقتدار ایک زہر ہے۔ اس سے جتنا دُور رہیں، یہی بہتر ہے۔ اگر اقتدار زہر ہے تو اس کو صرف وہی شخص ہضم کرسکتا ہے جو خود غرضی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اگر مودی ایک خود غرض لیڈر ہیں تو ان کے لئے اس طرح کا زہر آسانی سے ہضم ہوجائے گا۔ اگر یہ زہر ہضم نہیں ہوتا ہے تو پھر ہندوستانی عوام کو زہر کے گھونٹ پینے کے لئے مجبور کردیا جاسکتا ہے۔
جن لوگوں نے اقتدار میں رہ کر بدعنوانیوں کے ذریعہ خوب دولت کمائی ہے۔ انھوں نے ہی عوام کے لئے مہنگائی، کرپشن، دہشت گردی اور دیگر انتہا پسند سرگرمیاں لائی ہیں۔ اترپردیش کے شہر میرٹھ میں نریندر مودی نے اپنے تمام حریفوں کے خلاف سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔ سڑک کی زبان میں بات کرنے والا لیڈر ملک کا وزیراعظم ہوتا ہے تو اسے بدنصیبی یا حالت کی ستم ظریفی کہا جائے گا۔ اس ملک پر این ڈی اے نے 6 سال حکومت کی۔ اس کا دور حکومت بھی تنازعات سے گھرا ہوا تھا۔ کانگریس نے بوفورس دھاندلی کی تو بی جے پی کے دور میں کارگل سپاہیوں کے تابوتوں کا گھٹالہ رونما ہوا۔ این ڈی اے کے 6 سالوں میں ایسی کوئی خاص مثبت بات سامنے نہیں آئی، کرپشن میں کمی نہیں ہوئی، ملک کی عظیم الشان ترقی بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی ایسا نیا پراجکٹ رہا جس سے ملک کے عوام اور نوجوانوں کی بھلائی ہوئی ہو۔ این ڈی اے حکومت بھی اسی نظام کا حصہ تھی، جو مروج ہے۔ گجرات فسادات میں نریندر مودی کو کھلی چھوٹ دینے والے این ڈی اے کو دوبارہ اقتدار دینے کی بات کرنے والوں کو اس بات کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا کہ ملک میں گجرات فسادات کا خطرہ پیدا ہوگا۔ کارگل جنگ کی طرح کوئی جنگ چھڑ جائے تو ہزاروں انسان موت کے گھاٹ اُتار دیئے جائیں گے۔ این ڈی اے نے ’درخشاں ہندوستان‘ کا نعرہ دیا تو رائے دہندوں نے اس نعرے کو خاطر میں نہیں لایا تھا۔ اب نریندر مودی کے سہارے این ڈی اے کو مضبوط بنانے یا بی جے پی کی سیاسی قوت میں اضافہ کرنے پر توجہ دی جارہی ہے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا، کیونکہ ملک کے سیاسی ڈھانچہ تو کمزور بنادیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سیاستداں اپنی دولت کے اعتبار سے بہت طاقتور ہوچکے ہیں۔ کانگریس نے مابعد آزادی عوام کی جو خدمت کی ہے، اس کی وجہ سے عوام کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، ناخواندگی بڑھتی گئی، بے روزگاری نے بھیانک منہ کھول دیا، غربت کی سطح مزید تشویشناک ہوگئی تو پھر وہ اپنے لئے سیاسی کامیابی کی راہ کس طرح کشادہ کرے گی؟ یہ عوام کی مجبوری یا بے بسی ہے کہ انھیں ہر پانچ سال میں ایسی پارٹیوں کو ووٹ دینا پڑتا ہے جن کو وہ آزما چکے ہیں۔ نریندر مودی نے عوام کی دولت، فنڈس اور سرکاری خزانہ کی نگرانی کرنے کے لئے خود کو ’’چوکیدار‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک چائے والے سے چوکیداری کرانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ہندوستان میں جہاں بھی جارہے ہیں، گجرات کی ترقی کی مثال دے رہے ہیں۔
علاقائی جذبات سے کھیلتے ہوئے علاقائی پارٹیوں کو للکارا جارہا ہے۔ ہر ریاست کے رائے دہندوں کا اپنا علیحدہ مزاج اور سوچ ہوتی ہے تو پھر مودی کو یوپی میں کتنے ووٹ ملیں گے؟ یہ تو لوک سبھا انتخابات کے نتائج ہی بتائیں گے۔ حقائق کو بدلا نہیں جاسکتا۔ البتہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملک کی کامیابی اس کے اچھے لیڈروں اور بہترین نظام میں مضمر ہوتی ہے۔ ہندوستان میں یو پی اے ہو یا این ڈی اے، اس کا سرکاری نظام مختلف نہیں ہوتا۔ ان کا نظام صرف نظر کا دھوکہ ہوتا ہے۔ کھربوں روپئے کے گھٹالے ہر دونوں گروپ میں ہوتے ہیں۔ عوام اندھیرے میں نہ ہونے کے باوجود ان دونوں پارٹیوں یا گروپس کو ووٹ دیتے ہیں تو لوک سبھا معلق ہوگی۔ ایک معلق پارلیمنٹ کمزور حکومت فراہم کرے گی اور سیاسی طاقت کا منبع ناجائز طریقوں سے حکمرانی کرنے کی کوشش کرے گا۔ جو پارٹی جائز طریقے سے حکومت نہیں بنا سکے گی، تو اس کے لئے دیگر اُمور بھی جائز طریقے سے نہیں ہوں گے۔ پھر حق حکمرانی کا خون کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن جائے گا۔ رائے دہندوں کے سامنے نریندر مودی اور کانگریس کے علاوہ دیگر پارٹیاں بھی آرہی ہیں۔ اگر یہ علاقائی اور چھوٹی چھوٹی پارٹیاں مل کر بڑی مچھلی بن جائیں تو کیا حرج ہے کہ سیاسی سمندر کے بڑے شارک اپنی قبر بنانے کی فکر کرنے لگیں؟ زہر کی کھیتی ہو یا زہر پھیلانے کا الزام، اس کی جمع تفریق تو عوام الناس ہی کریں گے۔