زکوۃ کی واجب شدہ قلیل رقم ادا کرنا کروڑہا نفل صدقات سے بہتر

مال و دولت کی محبت فطری امر ہے۔ ہر انسان مال و دولت کو عزیز رکھتا ہے، اس کو جمع کرنے کی جستجو کرتا ہے اور ہمیشہ اس کو فروغ دینے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ بسا اوقات مال کی محبت دل پر اس قدر غالب آجاتی ہے کہ وہ اس کے حصول و فکر میں خدا اور اس کے رسول کے احکامات تک فراموش کردیتا ہے اور نافرمانی و معصیت کا مرتکب ہوکر آخرت کی دائمی و ابدی سعادتوں سے غافل و محروم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’لوگوں کے لئے خواہشات کی محبت آراستہ کردی گئی ہے (جنھیں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں) یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانہ ہے (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے! کیا میں تمھیں ان سب سے بہترین چیز کی خبردوں؟ پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لئے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اللہ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران)

انسان عالیشان مکانات، عمدہ سواریاں، کھیتیاں، باغات، کمرشیل، جائداد، فارم ہاؤس، بینک بیلنس اور سماج میں اونچے مقام و حیثیت کے لئے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کردیتا ہے، جب کہ یہ ساٹھ ستر سالہ عارضی زندگی کا حقیر ساز و سامان ہے، اس کے مقابل دائمی و ابدی زندگی آخرت میں نجات و کامرانی سے بالکل غافل ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیوی زندگی کی حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے اعلان فرماتا ہے: ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشہ ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے۔ اس کی مثال بارش کی ہے، جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خشک ہو جاتی ہے، پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو، پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی جانب سے مغفرت وعظیم خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تم اپنے رب کی بخشش کی طرف تیزی کرو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی وسعت جتنی ہے، ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہاور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرمادیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے‘‘۔ (سورۃ الحدید)
بعض لوگ شادی بیاہ کے موقع پر بے دریغ مال خرچ کرتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کے کھانے کا بہترین انتظام کرتے ہیں اور اس پر لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں چھلہ چھٹی، عقیقہ، سالگرہ اور دیگر مواقع پر بھی پوری دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن جب زکوۃ کا مرحلہ آتا ہے تو نہایت بخیل ہوجاتے ہیں اور اس سے بچنے کے لئے دس بہانے اور حیلے ڈھونڈتے ہیں۔ بعض حضرات انسانی ہمدردی میں اس قدر آگے آتے ہیں کہ کار خیر، مسجد کی تعمیر، طلبہ کی کفالت، غرباء و مساکین اور عزیز و اقارب کی امداد میں دل کھول کر حصہ لیتے ہیں اور جب زکوۃ کی نوبت آتی ہے تو دل تنگ ہو جاتا ہے اور زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی و غفلت کرتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ زکوۃ کی ادائیگی نفس پر نہایت شاق ہوتی ہے، اگرچہ وہ چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے، مگر اس کی ادائیگی کسی پہاڑ سے کم نہیں ہوتی ہے۔ اور جب بندہ نفس کے دھوکہ سے بچ کر کامل طورپر زکوۃ ادا کرتا ہے تو وہ اجر عظیم کا حقدار ہو جاتا ہے، اس کا مال پاک و صاف ہو جاتا ہے، اس میں برکت ہوتی ہے اور آفات و مصائب سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم زکوۃ دے کر اپنے اموال کو مضبوط قلعوں میں محفوظ کرلو‘‘۔ (ابوداؤد)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے، جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی؟‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا‘‘ (ابن خزیمہ، حاکم) حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے اسلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوۃ ادا کیا کرو‘‘۔ (طبرانی)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘ (سورۃ البقرہ) ’’تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو، یقینا تم پر رحم کیا جائے گا‘‘ (سورۃ النور) ’’انھیں صرف یہی حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور حق کی طرف یکسو ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے‘‘۔ (سورۃ البینہ)
جو لوگ پابندی سے کامل زکوۃ ادا کرتے ہیں، وہ اللہ تعالی کی رحمت کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ ارشاد الہی ہے: ’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا، جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہی لوگ ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف)

جو لوگ زکوۃ ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں، وہی مال و دولت اور سونا چاندی قیامت کے دن ان کے لئے وبال جان بن جائیں گے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور جو لوگ اللہ تعالی کے دیئے ہوئے مال (کی زکوۃ دینے) میں بخل کرتے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ بخالت ان کے لئے مفید ہے، بلکہ (یقین کرلینا کہ) وہ ان کے لئے برا ہے۔ عنقریب قیامت کے دن جس چیز کے ساتھ انھوں نے بخل کیا ہے، اس کا طوق انھیں پہنایا جائے گا‘‘۔ (سورہ آل عمران)
پس زکوۃ ادا کرنا نفس پر نہایت شاق ہے اور زکوۃ کی رقم جو ادا کی جاتی ہے اگرچہ وہ قلیل ہو، لیکن لاکھوں روپئے نفل خیرات و صدقات سے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے اور نفس کشی کے لئے نہایت مؤثر ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’شریعت کے کسی حکم کو بجالانا نفس پر ہزار ریاضتوں سے زیادہ مؤثر ہے‘‘۔ لہذا زکوۃ کی ادائیگی فلاح و کامرانی کا باعث ہے اور اس سے کوتاہی، ندامت و خسران کا باعث ہے۔