حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ نے میری زندگی بدل دی ، دو پاؤں سے محروم نو مسلم ڈاکٹر عفت فاطمہ سے بات چیت
حیدرآباد ۔ 28 ۔ فروری : ( محمد ریاض احمد ) : حسن اخلاق دیانت داری سچائی محبت و مروت جذبہ انسانیت و ہمدردی اور صلہ رحمی کے ذریعہ دل جیتے جاسکتے ہیں یہ ایسی خصوصیات ہیں جو دشمنوں کو بھی دوست بنادیتی ہیں ، جان لینے کے خواہاں جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ اسی لیے ہمارے نبی کریم ﷺ نے امت کو ہر صورت میں حسن اخلاق کے مظاہرہ کا حکم دیا ہے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق بہتر ہوں ‘ نبی کریم ﷺ نے امت کو پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین کی ہے ۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد مبارکہ سے برادران وطن کو واقف کروایا جائے تو معاشرہ میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں ۔ اسلام کے پیام انسانیت ، حضور اکرم ﷺ کی سیرت سے متاثر ہو کر دامن اسلام میں پناہ لینے والی ڈاکٹر عفت فاطمہ ( سابقہ نام پدما ریڈی ) کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی مسلمانوں سے کافی متاثر رہیں ان کی نمازوں اور خاندانی اقدار کو وہ قدر کی نگاہوں سے دیکھتی تھیں ۔ 2005 میں اسلام قبول کرنے والی 41 سالہ ڈاکٹر عفت فاطمہ نے ناگپور یونیورسٹی سے بی ایچ ایم ایس کیا اور پھر صابر نگر مراد نگر میں پریکٹس شروع کی ۔ سیاست کی ملی و قومی خدمات کی ستائش کرنے والی ڈاکٹر عفت فاطمہ نے جو پیروں سے محروم ہیں آج دفتر سیاست پہنچی چونکہ وہ سیڑھیاں چڑھنے سے قاصر تھیں اس لیے آٹو میں ہی ہم نے ان کا انٹرویو لیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ سیاست کی فلاحی خدمات کے بارے میں کئی برسوں سے واقف ہیں لیکن وہ اس لیے دفتر سیاست نہ آئیں کیوں کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اسلام قبول کرنے کے باعث وہ ( ڈاکٹر عفت فاطمہ ) کسی بھی قسم کی امداد حاصل کرنے کی خواہاں ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے صرف اور صرف اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کو راضی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا ہے ۔
اس کے لیے انہیں کسی دنیاوی ستائش کی تمنا ہے نہ صلہ کی پرواہ ۔ اپنے ماضی کے بارے میں استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ کوڑنگل کے قریبی گاؤں دامن گدہ کے ایک کسان گھر میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے ایک بھائی اور دو بہن ہیں ۔ اس گاوں میں دو تین مسلم گھر ہیں ۔ اپنی زندگی میں آئی اچانک تبدیلی کے بارے میں ڈاکٹر عفت فاطمہ نے بتایا کہ ایمسیٹ کی کوچنگ کے لیے وہ حیدرآباد آئیں اور چکڑ پلی آر ٹی سی کراس روڈ پر ظہور النساء نامی ایک خاتون کے گھر میں کرایہ سے رہنے لگی اس گھر میں کیو ٹی وی دیکھا جاتا تھا ۔ اس وقت پدما کو یہ چیانل بہت اچھا لگا ۔ ظہور النساء نے پدما کو بیٹی کی طرح رکھا اس دوران ہی پدما کے دل میں اسلام کی محبت بیٹھ گئی ۔ ایک سال کی کوچنگ کے بعد پدما ناگپور چلی گئی وہاں بھی وہ زیادہ تر مسلم ماحول میں رہنے لگیں ۔ پدما نے قرآن مجید کے تلگو نسخہ اور احادیث کا مطالعہ کیا اور پھر 2005 میں اسلام میں داخل ہوگئیں ۔ ڈاکٹر عفت فاطمہ نے بتایا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ جس طرح کٹر دشمنوں کو معاف کردیا کرتے تھے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں دی جاسکتی ۔ دونوں پیروں سے محرومی کے بارے میں ڈاکٹر عفت فاطمہ نے بتایا کہ وہ 1999 سے اسکوٹی چلاتی تھیں ۔ 2011 میں عطا پور کے قریب سڑک حادثہ کا شکار ہوئیں جس کے نتیجہ میں ایک پیر فوری جسم سے علحدہ کردیا گیا جب کہ انفیکشن کے باعث دوسرا پاؤں 26 مارچ 2013 کو کاٹا گیا ۔ اپنی معذوری کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی اس حالت زار کے لیے کسی سے بھی شکوہ نہیں کیا ۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے اور اللہ کے ہر فیصلے پر وہ خوش ہیں ۔ واضح رہے کہ صدر دکن وقف پروٹیکشن سوسائٹی جناب محمد عثمان الہاجری کے توسط سے وہ دفتر سیاست سے رجوع ہوئیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ عثمان الہاجری کے ارکان خاندان انہیں اپنے خاندان کا رکن سمجھتے ہیں اور زائد از 15 برسوں سے اس خاندان سے ان کی واقفیت ہے ۔ عفت فاطمہ نے مزید بتایا کہ انہوں نے دیڑھ سال ایک عیسائی ہاسٹل میں گذارے اور بائبل کا بھی مطالعہ کیا لیکن اسلام کی حقانیت ان کے ذہن و قلب پر چھا گئی ۔ ایک استفسار پر اس خاتون ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ یوگا کی ماہر ہیں اور یوگا کلاسس بھی لیا کرتی تھیں ۔ لیکن حادثہ میں دونوں پیروں سے محروم ہوجانے کے بعد یوگا کا سلسلہ بند ہوگیا ۔ ان کے مطابق یوگا کلاسیس میں یہ سوال ضرور پوچھا جاتا ہے کہ وہ کونسا مذہب ہے جس کی عبادت میں یوگا کے Steps پائے جاتے ہیں ؟ اور اس سوال کا جواب دین اسلام ہے جو دین فطرت ہے ۔ ڈاکٹر عفت فاطمہ مصنوعی پیر لگانے کی خواہاں ہیں اور اس کے لیے انہوں نے اپنی پریکٹس کے ذریعہ دیڑھ لاکھ روپئے سے زائد رقم اکٹھا کرلی ہے ۔ جب کہ مصنوعی پیروں کے نصب کرنے پر زائد از چار لاکھ روپئے کے مصارف آرہے ہیں ۔ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے شخصی طور پر ایک لاکھ روپئے کی امداد کا اعلان کیا ہے اور امید ہے کہ قارئین بھی اس نو مسلم بہن کی مدد کے لیے دست تعاون دراز کریں گے ۔ ڈاکٹر عفت فاطمہ نے انٹرویو کے دوران بار بار واضح کیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے سرفراز کرتے ہوئے لا زوال تحفہ عطا کیا ہے اور وہ اپنی زندگی کو ضرورت مندوں کی مدد اور اصلاح معاشرہ کے کاموں میں صرف کرنے کی خواہاں ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ مایوسی سے انہیں نفرت اور بلند عزم و حوصلوں سے محبت ہے ۔ ویسے بھی دین اسلام میں مایوسی کفر ہے ۔۔