زم زم ترے جگر میں شفاء بخش ہے عجیب

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ

زم زم اس کنویں کانام ہے جو حجر اسود سے جانب مشرق اور مقام ابراہیم سے جنوب میں واقع ہے ۔بعضوں نے لکھا ہے کہ اس کنویں کواللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانۂ شیر خوارگی میں ایڑہیوں کی رگڑسے جاری فرمایا ۔زم زم عبرانی لفظ ہے ۔جس کے معنی ’’رک جا ، رک جا‘‘ کے ہیں۔اوریہ کلمات حضرت سیدنا اسمعیل علیہ السلام کی والدہ سیدتنا بی بی ہاجرہ علیہاالسلام کی زبان مبارک سے اس موقع جاری ہوئے تھے، اسی اعتبار سے اس مبارک چشمہ کانام چشمۂ زم زم اور اس کے مبارک پانی کانام آبِ زم زم ہے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ زم زم کے معنی وافر پانی کے ہیں یعنی جواس قدر زیادہ مقدار میں ہوکہ اس کے ختم ہونے کاعرصہ دراز تک امکان نہ ہو۔(معجم البلدان ) بعضوں کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ زمزمۃ سے مأخوذ ہے جس کے معنی مطلق آواز کے ہیں ، ابن قتیبہ کہتے ہیں ۔ زم زم صرف پانی کی آواز کانام ہے ۔ بی بی ھاجرہ رضی اللہ عنہا مروہ پر ایک آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوگئیں ،اور یہ خیال کیں کہ شایدان کیلئے اللہ نے پانی کی کوئی سبیل پیدا فرمادی ہے ،اچانک کیا دیکھتی ہیں ایک فرشتہ ہے جس نے اپنی ایڑی یا اپنے پر زمین پر مارے کہ جس سے اچانک پانی کا چشمہ ابلنے لگا ۔ بی بی ھاجرہ رضی اللہ عنہا اِدھر مشکیزہ بھرتی جاتیںاُدھر وہ مزید ابلنے لگتا۔جس پرانہوں نے فوری اس کا احاطہ کرلیااور ایک منڈھیر سی بنادی جس سے پانی تھم گیا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں ۔حضرت نبی پاک ا نے ارشاد فر مایا۔ اسماعیل کی ماں پر اللہ رحم فرمائے اگر وہ زم زم کو یوں ہی چھوڑ دیتیں اور اسے محصور نہ کرتیںتووہ ایک بہتا چشمہ بن جاتا۔چنانچہ بی بی ھاجر ہ رضی اللہ عنہا زم زم نوش فرمائیں اور اپنے فرزندجلیل کو بھی پلایا۔(فتح الباری ،۶/۴۶۳ ) اللہ سبحانہ وتعالی نے مرکز امن، حرم پاک کے ایک حصہ میں اس مبارک پانی کا چشمہ جاری فرمایا۔ ایک عرصہ بعد اللہ کی مشیت سے اس چشمہ کے نشانات موہوم ہوگئے ۔حق سبحانہ وتعالی نے دوبارہ حضرت نبی پاک ا کے جد امجد حضرت عبد المطلب کے ہاتھوں اس مبارک چشمہ کے وجودکو ظاہر فرمایا۔(البلد الحرام فضائل واحکام ،ص۷۲ ) اس مبارک پانی کویہ شرف حاصل ہے کہ معراج کے موقع پر اس مبارک پانی سے آپ ا کے قلب اطہر کو غسل دیاگیا ۔ پھر ایمان وحکمت سے اس کو معمور کردیا گیا۔(صحیح البخاری مع الفتح۳/۴۹۲ )

زم زم میں اللہ سبحانہ وتعالی نے بیماریوں سے شفا ء اور بھوک میں غذا کی صلاحیت رکھی ہے اس طرح زم زم ایک پاکیزہ اور مبارک غذا بھی ہے۔ اور باذن اللہ شفاء دینے کیلئے دوا بھی ۔ روایت میں آتا ہے ۔سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ایمان لانے سے قبل ایک ماہ تک حرم پاک میں رہے ، جب کہ ان کیلئے کھانے پینے کا سوائے زم زم کے اور کوئی انتظام نہیں تھا ۔ صرف زم زم پر گزارہ کرتے رہے ،بھوک وپیاس میں صرف زم زم استعمال کرتے اور سب کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کرتے لیکن انہیں کبھی بھوک یا کسی طرح کی نقاہت اورکمزوری کا کوئی احساس نہیں ہوا۔اس لئے انہوں نے فرمایا ۔ یہ پانی برکت والا بھی ہے اور بھوک لگنے پر سیراب کرنے والابھی۔(صحیح الامام مسلم ۴/۱۹۱۹ ) امام طبرانی کبیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل فرماتے ہیں۔نبی پاک ا نے ارشاد فرمایا۔ روئے زمین پر سب سے بہترین پانی ماء زم زم ہے ، جس میں بھوکے کیلئے غذا اور بیمار یوں سے شفا ء ہے۔ (معجم الطبرانی الکبیر ،۱۱/۹۸رقم ،۱۱۱۶۸) مختصریہ کہ یہ پانی بہت بابرکت ہے، جس کا پینااجر وثواب کا باعث ہے ، جو جسمانی و روحانی بہت سے امراض کیلئے شفا ہے ،جس مقصد کیلئے یہ پانی پیا جائے اللہ سبحا نہ وتعالی اس کو پورا فرماتے ہیں۔بیماری سے شفاء کی نیت سے پینے والے کو اللہ تعالی شفاء عطا فرماتے ہیں ، تشنگی بجھانے کیلئے پینے سے اللہ سبحانہ وتعالی سیرابی بخشتے ہیں ،بھوک مٹانے کیلئے اسے استعمال کیا جائے تو حق سبحانہ وتعالی شکم سیر فرماتے ہیں۔(اخبار مکۃ ،ج۲،ص۵۰،باسناد صحیح الی مجاہد)ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشاہدہ وتجربہ سے اس کے بڑے منافع ا ور بے حد وحساب فوائد ثابت ہیں انہوں نے اس بارے میں اپنے شخصی تجربات قلمبند کئے ہیں ۔(زاد المعاد ۳/۴۰۶) یہ پانی مبارک ومقدس ہونے کے باوجود اس سے برکۃً وضو یا غسل جائز ہے ۔ناپاک چیز کو آب زم زم سے دھونا یا ناپاک شخص کا پاکی حاصل کرنے کی نیت سے غسل کرنا جائز نہیں۔

زم زم ٹہر کراور قبلہ ر وہو کر پینا مستحب ہے ۔زم زم اس قدر زیادہ مقدار میں پینا چاہئے کہ پسلیاں یعنی اندرونی جسد خوب سیر ہوجائے ،یہ ایمان والوں کی علامت ہے ۔ زم زم خوب سیر ہوکر نہ پینا حدیث پاک کی رو سے نفاق کی علا مت ہے ۔ (رواہ ابن ماجہ فی کتا ب المناسک ، ۲/۱۰۱۷) بطور تبرک اپنے استعمال کیلئے ، دوست احباب اور اقرباء کو تحفۃ دینے کیلئے وطن واپس ہوتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لیجایا جاسکتا ہے ۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ساتھ زم زم لیجایا کرتی تھیں اور نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ اسے بھی اس طرح کا عمل ثابت ہے ۔( رواہ الترمذی فی الحج،۳/۲۸۶، والبخاری فی تاریخ الکبیر ۳/۱۸۹، والبیھقی،۵/۲۰۲)
اس کائنات ارضی پر زم زم کا کنواں اللہ سبحانہ وتعالی کی قدرت کا ایک عظیم شاہکار،اور بڑی معجزانہ شان کا حامل ہے ۔اس پانی کو برسوں بندکرکے رکھ لیاجائے کیا مجال کہ اس میں کیڑے پڑجائیں یا بو پیدا ہوجائے ۔دنیا میں کتنے کنویں ہوں گے جو خشک ہوچکے ،لیکن اللہ سبحانہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ یہ کنواں باوجود اس کے کہ اس کی گہرائی کم ہے پھر بھی جوں کا توں پانی سے لبریز ہے ۔ دنیا جہاں اس سے سیراب ہورہی ہے پھر بھی اس میں نہ کوئی کمی واقع ہوئی نہ ہی اس کے خشک ہونے کی نوبت آئی ،اس زمین پر یہ کنواں اللہ سبحانہ کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی ہے ۔ان شاء اللہ العزیز جو تاقیام قیامت دنیا انسانیت کو سیراب کرتارہے گا۔دور حاضرکے غیر مسلم سائنسداں بھی حیرت زدہ ہیں اور تحقیق کے بعد اس پانی کی عظمت کے معترف اور اس میں موجود حیاتی اجزاء کی بناء اس کی افادیت کے قائل ہیں ۔وہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ روئے زمین پر ایسا نفع بخش ومفید صحت پانی سوائے مسجد حرام کے کہیں اور نہیں ہے۔(ابن ماجہ ،باب الشرب من زم زم ،ص۲۲۰)۔
قربان جائیے صادق ومصدوق پیغمبر اسلام نبی آخر الزماں سیدنا محمدرسول اللہ ا کے کہ انہوںنے آج سے چودہ سوسال پہلے ارشاد فرمایا۔روئے زمین پر سب سے بہتر بانی ماء زم زم ہے اور اس کا کنواں سب سے بہتر کنواں ہے ۔ اور آج غیر مسلم سائنسدانوں کیلئے بھی اس ارشاد پاک کی تصدیق کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ۔