آفات سماوی سے شکایت نہیں لیکن
ارباب اقتدار کی غفلت کا ہے شکوہ
زلزلے کے پے در پے جھٹکے
نیپال میں زلزلے کے متواتر جھٹکوں نے اس ہمالیائی ملک کو مزید تباہ کن صورتحال سے دوچار کردیا ہے ۔ اس مرتبہ اموات کی تعداد گزشتہ ماہ آئے زلزلہ کی تباہ کاریوں سے کم ہے ۔ زلزلوں کی شدت کو دیکھتے ہوئے ماہرین کو یہ تشویش ہوئی ہے کہ عصری ٹیکنالوجی کے باوجود اس طرح کے واقعات کا چند منٹ قبل تک بھی اندازہ نہیں ہوتا ۔ جب کسی معاملہ میں دنیاوی ماہرین ، سائنسدانوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کردیا ہے تو یہاں قدرت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ان انسانوں کو توفیق کا باب کھل جاتا ہے مگر ایسے حالات کی شدت کو محسوس کرنے کے باوجود انسانوں میں اپنے عملی زندگی کی خرابیوں کو دور کرنے کی فکر لاحق نہیں ہوتی ۔ زلزلوں سے متعلق تمام ماہرین کا خیال ہوتا ہے کہ یہ زمینی ارتعاش کا نتیجہ ہے ۔ اس طرح کے بھیانک واقعات کو روکنے میں تمام مشنری ناکام ہوئی ہے ۔ اپریل میں آنے والا زلزلہ شدید تھا جس کی شدت 7.8 تھی آج کی شدت 7.4 ، 6.2 ناپی گئی ہے ۔ 10 ہزار سے زائد اموات اور شدید تباہی کے بعد نیپال کے عوام دوبارہ جینے کے سامان کررہے تھے کہ ان پر پے در پے آفت ٹوٹ پڑی ہے ۔ نیپال زلزلہ کی شدت شمالی ہندوستان میں بھی محسوس کی گئی ہے ۔ زلزلہ سے محفوظ رہنے والی عمارتوں کی تعمیر اور اموات کو کم سے کم ہونے کی تیاری کرنے والی حکومتوں کے لئے یہ بات تشویشناک ہے کہ زلزلہ کی تباہی کے بعد بازآبادکاری کا مسئلہ سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔ اگرچیکہ دنیا بھر سے امداد و رسد کی فہرست طویل ہوتی ہے اس امداد کے باوجود انسانوں کو ان کی روزمرہ زندگی کو دوبارہ معمول پر لانے کے لئے وقت لگتا ہے ۔ ماہرین پر زلزلہ کی تباہی کے بعد کوئی نہ کوئی منصوبہ پیش کرتے ہیں لیکن وقت گذرنے کے بعد انسان کے بس کی جو بات نہیں ہوتی اسے یوں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ عمارتوں کو کھڑا کرنے کیلئے حکومتوں اورسرکاری اداروں نے جو قواعد و تعمیری اصول تیار کئے ہیں ان پر ازسرنو نظرثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے خاص کر ان مقامات پر جہاں زلزلہ کا خطرہ ہوتا ہے وہاں کی تعمیرات کو متوازن طریقہ سے انجام دیا جانا چاہئے ۔ سلامتی ، لاگت ، ہیرٹیج اور عملی طورپر قابل عمل کاموں کی انجام دہی ہی نقصانات سے محفوظ رہنے کی ترکیب ہوسکتی ہے ۔ نیپال کے زلزلہ سے ایک درس یہ ملتا ہے کہ انسانوں نے اپنے خسارہ کا سب سے زیادہ سامان کرلیا تھا ۔ جانی و مالی دونوں اعتبار سے یہاں کا ماحول نقصان دہ ہے ۔ انسانی زندگیوں کی اہمیت اور اس کو محفوظ رکھنے کے اصولوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو قدرتی آفات سماوی جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں نے زلزلہ سے متاثرہ اراضیات پر تعمیرات کیلئے جو اصول بنائے ہیں ان کو نظرانداز کردینے سے بھی جانی نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 25 اپریل کو آنے والے زلزلہ کے بعد نیپال میں امدادی کاموں کی انجام دہی کیلئے بھی چند ملکوں نے دکھاوے کا مظاہر کیا تھا ۔ امدادی سامان کے ساتھ ٹی وی جرنلسٹوں اور کیمروں کی کثیرتعداد بھیج کر یہ دکھایا گیا تھا کہ امداد دینے والے ملکوں کے خیرات کا پرچار کس طرح کرنا ہے ۔ ویسے زلزلہ کی تباہ کاریاں اور انسانی اموات کے واقعات صرف نیپال کیلئے ہی ایک منفرد بات نہیں ہے ایسے واقعات دنیا بھر میں کہیں بھی کبھی بھی ہوسکتے ہیں لیکن امداد دینے والے ملکوں یا ڈھونگ کرنے والے ممالک بھی جب متاثرہ انسانوں کے ساتھ سیاست کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تو اس پرحیرانی ہوتی ہے ۔ ملبے تلے زندگیاں دب چکی ہوتی ہے اور ملبہ کے اوپر زندہ رہنے والی زندگیاں ایک دوسرے کے محتاج بن جاتی ہیں ۔ جن عمارتوں میں 25 اپریل کے زلزلہ کے باعث شگاف پڑگئے تھے یہ عمارتیں تازہ زلزلہ کے جھٹکے سے منہدم ہوگئی۔ اس خوفناک زلزلہ نے ساری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ درجنوں ایسی عمارتیں جو پہلے کے زلزلہ میں نیم متاثرہ تھیں اس دفعہ وہ پوری طرح تباہ ہوگئیں ہیں۔ 13 ویں صدی کے بعد نیپال کے اس زلزلہ کو سب سے زیادہ بھیانک بتایا جارہا ہے اور یہ علاقہ ہر 75 سال بعد اس طرح دہلتا ہے ۔ نیپال کے علاقہ کو سیمسیکا حساس بتایا گیا ہے ۔ لیکن ایسے کئی علاقے ہیں جہاں سیمیکلی اراضیات کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا وہاں بھی زلزلہ ہوتے ہیں جیسے 1993 ء میں لاتور کلاری میں آنے والے زلزلہ نے تمام سیسمالوجیکل ماہرین کو حیران زدہ کردیا تھا ۔ یہاں قدرت کے قہر اور عذاب پر یقین نہ کرنے والوں کی آنکھ کھل جانی چاہئے ۔