کھل جائے گی انسان کی عظمت کی حقیقت
جس دن بھی بنیں ملبہ یہ سب پختہ عمارات
زلزلہ کا سانحہ
نیپال اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں آئے زلزلوں نے ہزاروں انسانوں کی جانیں لی ہیں۔ انفراسٹرکچر کی تبہی اور مالی نقصانات والے اس سانحہ سے بچنے کیلئے انسان نے تیز تر ترقی کے باوجود کوئی فنی اقدامات نہیں کئے ہیں۔ زلزلہ چاہے شدید ہو یا خفیف اس کا مبدا بعض اوقات مقام زلزلہ سے ہزاروں میل پایا جاتا ہے۔ ماہر زلزلہ پیما کی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود اس طرح کے سانحات کے وقوع پذیر ہونے کی پیش قیاسی نہیں کرسکتے ۔ نیپال کا زلزلہ 8 دہوں بعد سب سے بھیانک ثابت ہوا ہے یہاں کی گنجائش اور غیر منصوبہ بند طریقے سے تعبیر کردہ مکانات کی وجہ سے انسانی جانوں کو شدید نقصان ہوا ہے ۔ زلزلے کی تاریخ روز اول سے ہی رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں آنے والے زلزلوں نے عصری ٹکنالوجی اور سائنس معلومات میں تمام تر ترقی کو بھی ناکام کردیا ہے 7 ستمبر 2008 کو چین میں آیا زلزلہ اور 2011 کے نیوزی لینڈ زلزلہ کی یادیں تازہ ہوگئی ہیں کیونکہ ان زلزلوں کی شدت علی الترتیب 7.9 اور 6.3 ناپی گئی تھی۔ نیپال میں بھی اس زلزلہ کی شدت 7.9 ہی رہی ہے ۔ نیپال کے زلزلے سے ہونے والی اموات کی تعداد کو کم کیا جاسکتا تھا لیکن مکانات ‘عمارتوں کی تعمیرات میں وصولوں کو نظر انداز کردیاگیا جس کے نتیجہ میں زلزلہ کی شدت سے کئی عمارتیں زمین روز ہوگئیں ۔عموما پہاڑی علاقوں میں عمارتوں اور مکانات کی تعمیر کیلئے مروج طریقوں اور اصول پر عمل کرنا لازمین ہوتا ہے ۔ نیپال خاص کر دارالحکوتم کھٹمنڈو میں ایسا نہیں ہوا ۔ پرانی عمارتوں کی چھتوں پر ہی ایک نئی چھت ڈالدی گئی اور منزلوں کا اضافہ کرنیکی غرض سے تعمیر اسٹراکچر کی مضبوطی کا جائزہ نہیں لیا گیا جس کے نتیجہ میں نیپال کے عوام کو سب سے زیادہ بھیانک تباہی سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ نیپال کے کم و بیش اہم مقامات اب کھنڈر کا منظر پیش کررہے ہیں ۔ حکومت ہند نے نیپال عوام کے دکھ درد میں برابر شریک ہونے کا اظہار کرتے ہوئے امدادی راحت پہونچانے میں پہل کی ہے ۔ عالمی برادری نے بھی نیپال کیلئے اپنے دست تعاون کو دراز کیا ہے ۔ تیزی سے بدلگی شہری زندگیوں نے مکانات میں رہنے والے مکینوں کو اپنی عمارتوں کی پختگی اور اس کی پائیداری کی فکر نہیں رہتی ایسے میں بارش کے موسم میں یہ بوسیدہ عمارتیں منہدم ہوتی ہیں اور ان کا نازک اسٹراکچر زلزلہ کے نشانہ پر رہتا ہے ۔ نیپال زلزلہ کے مہلوکین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ سے یہ ظاہو ہتا ہے کہ حکومت اور عوام نے اصولوں کو نظر انداز کردیا ہے ۔ ملبہ سے نکالی جنے والی نعشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ لوگ جن عمارتوں میں رہتے تھے یہ رہنے کے قابل نہیں تھے۔ ترقی یافتہ دنیا میں شہریوں کو اپنے قیام کیلئے محفوظ آرام دہ پناہ گاہیں ہونی چاہئے اس کیلئے انجینئرنگ کے اصولوں کو سختی سے روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے ۔ شہری انفراسٹرکچر میں بلند عمارتوں کا وجود زیادہ سے زیادہ انسانوں کو بسانے کیلئے ہوتا ہے مگر جب یہ عمارتیں انجینئرنگ اصولوں سے ہٹ کر بنائی جاتی ہیں تو زلزلہ جیسے سانحات میں انسانی جانوں کے کم از کم اتلاف کو یقینی بنانے میں ناکامی ہوتی ہے ۔اس زلزلہ کے بعد ہر بڑے اور چھوٹے ملک کو اپنے شہروں میں وجود میں آنے والی بلند عمارتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ عمارتوں کو انسانوں کے آرام کیلئے بنایا جاتا ہے زلزلہ کی صورت میں انسانی جانوں کے اتلاف کیلئے نہیں ۔ ریئیل اسٹیٹ کے شعبہ کے لوگوں کو اصولوں اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روکنا ہے ۔ ہندوستان میں بھی زلزلہ کی شدت سے مختلف حصوں میں 74 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔سائنسی ترقی کے باوجود ماہرین زلزلہ پیما کوئی پیش قیاسی کرنے سے قاصر ہوں تو عوام الناس کو ہی از خود اپنی جانوں کی حفاظت کا خاص خیال رکھ کر کالونیاں وجود میں لانی ہوں گی ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اتنی پرانی عمارتوں پر ہی نئی عمارت کھڑی کردی جاتی ہے جس سے تباہی یقینی ہوتی ہے اسی طرح کے حالات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ محفوظ راہ نکالی جائے جس سے عوام الناس کی عمارتیں بھی پختہ ہونے کے ساتھ اصولی اور وہ زلزلہ جیسے سانحہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوں متبادل انتظام کرتے ہوئے جانیں بچائی جاسکتی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ساری دنیا تیزی سے ترقی کرتی ہے لیکن انفراسٹرکچر کے کارکردگی کے معاملہ میں وہ لاپرواہ دکھائی دیتی ہے۔