ملک میں سنگھ پریوار کے لوگ قانون سے بالاتر بنتے جارہے ہیں ۔ آہستہ آہستہ زعفرانی گروپ کے تمام لوگ اپنے گناہوں سے پاک ہونے لگے ہیں ۔ مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت میں قانون اور عدلیہ کے رول پر سوال اٹھایا جانا بھی قوم دشمن کی تعریف میں آنے لگے تو پھر یوں سمجھئے کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان کا مزاج اور سوچ کا کیا ہوگا ۔ سیکولر کردار اور جمہوری اصولوں کی باتیں کرنا اب بچکانہ عمل متصور ہورہے ہیں ۔ جب قانون اور عدلیہ میں بھی دہشت گردوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہونے لگتا ہے تو پھر انصاف کے حصول کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کی اصل ملزم سادھوی پرگیہ سنگھ کو ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہائی کا حکم دیدیا ہے ۔ 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں ان کی گرفتاری کے 9 سال بعد ضمانت پر رہائی کو یقینی بنایا گیا ہے تو پھر تنقیدی جائزہ لینے والوں کا یہ خیال غور طلب ہوگا کہ سادھوی کو جیل سے رہا کرانے کے بعد اترپردیش کی آدتیہ ناتھ یوگی کی کابینہ میں جگہ دے کر اونچا درجہ دیا جائے گا ۔ یہ تبدیلی دہشت گردی کے ساتھ امتیازی سلوک کی بدترین مثال ہوگی ۔ 10 اکٹوبر 2008 کو مہاراشٹرا کی انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے گجرات کے ضلع سورت میں واقع پوناکمبھارہا موضع کے ایک ہاوزنگ سوسائٹی کی زبردست چھان بین کر کے انہیں گرفتار کیا تھا ۔ ان کی گرفتاری کے بعد وہ ہندو کٹر پسند لیڈر بن کر ابھریں ۔ ان کے اندر سادھوی رتھمبرا دیوی یا اوما بھارتی کی شبیہہ تلاش کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے ۔ 1990 میں سادھوی رتھمبرا دیوی اور اوما بھارتی نے ملک میں ہندوتوا نظریہ کو بڑھاوا دینے کے لیے زہر افشاں بیانات دینا شروع کیا تھا ۔ اپنی زہریلی فرقہ پرستانہ تقاریر کے ذریعہ مذہبی لبادہ کو فروغ دینے والی اس پرگیہ سنگھ کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ ان کی گرفتاری اس لیے عمل میں آئی تھی کیوں کہ دھماکہ میں استعمال کردہ ایل ایم ایل فریڈیم موٹر سیکل ان کے نام درج رجسٹر تھی ۔ بمبئی ہائی کورٹ نے 36 سالہ پرگیہ کو ضمانت دیدی ہے اور کہا ہے کہ بادی النظر میں ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ مدھیہ پردیش میں 1996 میں اے بی وی پی کی ریاستی آرگنائزنگ سکریٹری سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والی پرگیہ نے بعد ازاں وندے ماترم جن کلیان سمیتی اور راشٹرا وادی سینا جیسی تنظیموں کے ذریعہ نفرت پر مبنی مہم شروع کی ۔ اب جب کہ اترپردیش کے بشمول 13 ریاستوں اور مرکز میں بی جے پی کی حکمرانی ہے تو سنگھ پریوار کی کٹر پسند رکن کو جیل میں زیادہ مدت تک محروس رکھنا اس تنظیم کے لیے توہین آمیز متصور کیا گیا ۔ مرکز کی مودی حکومت نے ان ہندوتوا کارکنوں کو تمام الزامات سے آزاد کرانے کا بیڑہ اٹھایا ۔ سب سے پہلے گجرات مسلم کش فسادات کے الزامات میں محروس مایا کوڈنانی کو ضمانت ملی اور آر ایس ایس پرچارک سوامی اسیماانند کو رہا کردیا گیا اب سادھوی پرگیہ سنگھ جیل سے رہا ہورہی ہیں ۔ حالیہ زعفرانی حکمرانی کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کی حمایت کرنے والا ہر بدعنوان ، فرقہ پرست ، مقدمات میں ماخوذ فرد کو آزادی مل رہی ہے ۔ اب کے دور میں ہندوستانی عوام کا ایک طبقہ یہ پروپگنڈہ کررہا ہے کہ ان ہندوتوا علمبرداروں کو کانگریس کی سابق حکومتوں نے غیر ضروری محروس رکھا تھا ۔ ہیمنت کرکرے کو بھی فراموش کردیا گیا جس نے اپنی جان پر کھیل کر ایک دہشت گرد واقعہ کو شدت اختیار کرنے میں ناکام بنایا تھا ۔ اس طرح ملک میں ایک طاقتور گروپ نے سازشی سطح کو اتنا مضبوط بنایا کہ اس سازش نے سچائی کا روپ دھار لیا اور حقیقت کو سازش قرار دے کر دبا دیا گیا ۔ اگر قانون و انصاف کی راہ داریوں کو دہشت گردی جیسے نازک مسئلہ کو بھی امتیازات کی نذر کردیا جائے تو پھر ملک میں آنے والے وقتوں میں سنگین صورتحال رونما ہوگی ۔ بہر حال مودی حکومت نے جن اچھے دن کا نعرہ لگایا تھا ۔ اس کے مطابق زعفرانی ٹولے کے لیے اچھے دن لائے گئے ہیں ۔ اگر زعفرانی دہشت گردی کو قانونی چھوٹ ملتی ہے تو اس ملک کو سازشوں کا گڑھ بناکر اپنے مقاصد پورا کرنے کے خواہاں ہندوتوا دہشت گردوں کو پوری آزادی ملتی نظر آئے گی ۔ ایسے میں ملک کی عدلیہ اور ان تمام سیکوریٹی ایجنسیوں کی تحقیقات اور جانچ پڑتال کے طریقہ کاروں پر سوالیہ نشان لگتا ہے کہ آیا انہوں نے بے قصوروں کو پھانس کر عدلیہ کا وقت ضائع کیا کیوں کہ بمبئے ہائی کورٹ نے سادھوی پرگیہ کو 9 سال بعد یہ کہہ کر ضمانت دی کہ بادی النظر میں ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے ۔۔