l ٹی آر ایس اقلیتی سل کی نمائندگی پر ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی کی مداخلتl یونیورسٹی کے احاطہ میں موجود ایک اور 400سالہ قدیم مسجد کا آباد کرنا ضروری
حیدرآباد۔/16جون، ( سیاست نیوز) حیدرآباد فرخندہ بنیاد اور اس کے اطراف و اکناف میں سینکڑوں ایسی مساجد ہیں جو فن تعمیر کا شاہکار ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بیشتر مساجد کو تاریخی ورثہ کے تحفظ کے نام پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور ریاستی محکمہ آثار قدیمہ نے غیر آباد رکھا ہے۔ شہر میں ایسے نوجوان بھی ہیں جن کے دل جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں، وہ برادران وطن کے تعاون و اشتراک سے گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھتے ہوئے غیرآباد مساجد کو آباد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔حال ہی میں حکومت تلنگانہ نے حیدرآباد میں صاف صفائی کیلئے مہم ’’ سوچھ حیدرآباد‘‘ شروع کیا، اس پروگرام کے دوران راجندر نگر کے ٹی آر ایس قائدین نے پروفیسر جئے شنکر تلنگانہ اسٹیٹ زرعی یونیورسٹی راجندر نگر میں موجود دو قدیم مساجد میں سے ایک ’’ مسجد بخاری ‘‘ ( جسے مسجد حسینی کا نام دیا گیا ہے) اس کی صفائی کی۔ مسجد جھاڑیوں میں گھر چکی تھی اور اندرونی حصہ میں بوتلیں اور کچرے کے انبار تھے۔ واضح رہے کہ اس یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت پروفیسر عبدالوہاب بخاری سے مسجد کو موسوم کیا گیا تھا۔یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی اور دیگر کی کاوشوں کے باعث مسجد کے دبارہ آباد کرنے کی راہ ہموا رہوئی ورنہ مسجد پر تالے ڈال دیئے گئے تھے۔ نومبر 2010ء میں جناب محمود علی نے اس مسجد کا دورہ کرتے ہوئے یونیورسٹی حکام سے اسے آباد کرنے کی اپیل کی تھی اور بتایا تھا کہ مارچ 1977ء میں افضل العلماء پروفیسر عبدالوہاب بخاری نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ کچھ برسوں تک مسجد آباد رہی لیکن حالات بدلنے کے ساتھ مسجد کے دروازے بھی بند کردیئے گئے۔ اس مسجد میں 32سال قبل نماز ادا کرنے والے ڈاکٹر این اے انصاری نے جو کنٹرولر آف اکزامنیشن کے عہدہ پر فائز ہیں مسجد کو دوبارہ آباد کرنے میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اہم رول ادا کیا۔ چنانچہ مسجد حسینی کی نہ صرف صفائی کی گئی بلکہ آہک پاشی کے ذریعہ پھر سے اسے آباد کردیا۔ اب وہاں مسلم ارکان اسٹاف اور مسلم طلبہ نمازیں ادا کررہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی کی مداخلت پر یونیورسٹی کے رجسٹرار و اسپیشل آفیسر ڈاکٹر وی پراوین راؤ نے یونیورسٹی کے مسلم ارکان اسٹاف بشمول ڈاکٹر این اے انصاری کنٹرولر آف اکزامنیشن، محمد غوث سپرنٹنڈنٹ، اے امجد سینئر اسسٹنٹ اور دیگر 10کی نمائندگی پر مسجد میں نمازیں ادا کرنے کی اجازت دے دی تاہم دی گئی مشروط اجازت میں کہا گیا ہے کہ صرف مسلم ارکان اسٹاف اور طلبہ ہی اس مسجد میں نمازیں ادا کرسکتے ہیں۔ بہر حال ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی نے مسجد کو آباد کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ تو پورا ہوگیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ مسجد کب تک آباد رہتی ہے کیونکہ بعض ایسے عہدیدار بھی ہوتے ہیں جو تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفاتر، کالجس، یونیورسٹیز وغیرہ کے احاط میں موجود مساجد میں مختلف بہانوں سے نماز کی اجازت نہیں دیتے۔ حالانکہ مساجد میں نمازوں کیلئے مسلمانوں کو کسی کی اجازت کی ضرورت ہی نہیں پھر بھی مسلم شہری بہت ہی پُرامن انداز میں باضابطہ اجازت حاصل کرکے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ مسجد کے آباد کرنے میں ٹی آر ایس اقلیتی سل کے قائدین عبدالمقیت چندا سابق صدر ضلع رنگاریڈی اسٹیٹ جنرل سکریٹری مائناریٹی سل، عزیز نعیم حامد کے علاوہ عطا پور رنگ روڈ لاری ورکرس اسوسی ایشن کے عہدیداروں سید اعظم پاشاہ، نظام الدین، محمد اکرم علی، مخدوم بھائی، اجو بھائی، احمد پٹیل، مکرم خان اور مرزا سید علی و دیگر نے کلیدی رول ادا کیا۔ واضح رہے کہ پروفیسر اچاریہ این جی رنگا یونیورسٹی کا 20مارچ 1965ء کو اس وقت کے وزیراعظم اور جئے جوان جئے کسان کا نعرہ دینے والے لال بہادر شاستری کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا تھا۔23جون 1966ء کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے یونیورسٹی کی بلڈنگ پروگرام کا افتتاح کیا لیکن علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد نئی ریاست کے نظریہ ساز پروفیسر جئے شنکر سے اس یونیورسٹی کو موسوم کیا گیا۔ 540 ایکڑ اراضی پر محیط اس یونیورسٹی میں 400 سالہ ایک اور قدیم مسجد ہے اس کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ امید ہے کہ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی اس مسجد کے تحفظ کیلئے بھی آگے آئیں گے۔ ویسے بھی یہ کام سیاسی فوائد کیلئے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کی رضا کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔