ہم ہی نہیں جہاں میں گرفتارِ رنج و غم
اس کے بھی دل کو شاید نہ چین و قرار ہے
ریڈیو سے خطاب
وزیراعظم نریندر مودی نے آل انڈیا ریڈیو کے ذریعہ ملک کے عوام کو اپنے خیالات و احساسات سے واقف کرواتے ہوئے ہندوستانیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی اہمیت کو محسوس کریں۔ عوام تک زیادہ سے زیادہ تعداد میں رسائی حاصل کرنے کے مقصد سے اُنھوں نے آل انڈیا ریڈیو کا استعمال کیا ہے۔ ملک بھر میں 413 اسٹیشنوں کے ساتھ آل انڈیا ریڈیو ملک کے تقریباً 92 فیصد علاقہ میں سنا جاتا ہے۔ جہاں 99.19 فیصد آبادی رہتی ہے۔ ہندوستانی عوام کی صلاحیتوں کی ستائش کرتے ہوئے اُنھوں نے ملک کی مریخ مہم کا بھی ذکر کیا۔ ’’من کی بات‘‘ پروگرام کے دوران عوام کو صاف ستھرا ہندوستان بنانے کی بھی ترغیب دی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے نریندر مودی صرف ہدایات اور مشوروں کے ذریعہ حکمرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کے ناقدین کے ذہنوں میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ آخر ہندوستانی عوام کے بنیادی مسائل کی یکسوئی کے لئے ان کے پاس کتنے ٹھوس منصوبے ہیں۔ ان کی تقریریں تو بہت کلیدی حیثیت رکھتی ہیں لیکن سچ پوچھیں تو حکمرانی کی کلید عملی اقدامات اور عوام کو ترقی دینے کی کوششوں میں چھپی ہوتی ہے۔ وزیراعظم کا فلسفہ کہ وہ صاف صفائی کے ذریعہ ایک پاکیزہ ہندوستان بنائیں گے۔ دیانتدار سرکاری عملہ کے بغیر صفائی کا تصور محال ہے۔ برقی کے بغیر زندگی گزارنے والے عوام کو وزیراعظم کی ان باتوں پر حقیقت میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ کوئی بھی لیڈر ایک لمحہ کے لئے اے سی کے بغیر جی نہیں سکتا۔ اے سی والی گاڑیوں میں گھومنے والے حکمراں اپنے گھروں میں جب فاسٹ جنریٹر رکھ لیتے ہیں تو ہندوستان کا ہر غریب آدمی اپنے گھر کے سامنے بنیان پہن کر کھڑا ہوتا ہے کہ کب برقی آئے اور وہ ایک گھنٹہ سکون سے بیٹھ سکے۔ وزیراعظم نے ملک کے عوام کو کھادی کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا تاکہ کھادی مصنوعات کو فروغ حاصل ہوسکے۔ کھادی کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ کھادی کے ملبوسات تیار کرنے والا غریب انھیں خرید کر پہننے سے قاصر ہوتا ہے۔ اس ملک میں کھادی بھی اب غریبوں کے لئے نہیں ہے۔ اس کی قیمت دیگر ملبوسات و پارچہ جات سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان دنوں کھادی صرف سیاستداں یا امراء ہی کا لباس بن کر رہ گیا ہے۔ خود وزیراعظم مودی جو کرتا زیب تن کرتے ہیں اس کی قیمت تقریباً 35 ہزار روپئے ہوتی ہے۔ ہندوستان کے غریب عوام کے لئے کھادی کے استعمال کا مشورہ ان کی غربت کو گالی دینے کے مترادف سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کی تقریریں سننے میں بہترین معلوم ہوتی ہیں ، عملی طور پر مشکل ہے۔ جس طرح ایک صاف ستھرا ماحول پیدا کرنے کے لئے صفائی مہم کو اہمیت دی گئی ہے اسی طرح ایک صاف ستھرا نظم و نسق دینے کے لئے کرپشن سے پاک بیوروکریٹس و سرکاری کرمچاری کا ہونا ضروری ہے۔ سوچھ بھارت کا خواب اُس وقت پورا ہوگا جب سرکاری دفتروں سے رشوت کا صفایا کیا جائے اور وزیراعظم مودی کے لئے یہ کام کر دکھانا ممکن نہیں ہے۔ وہ خود اپنی کابینہ کے وزراء کے بارے میں جانچ پڑتال کرسکتے ہیں اور نہ ہی دیگر منتخب نمائندوں کی بدعنوانیوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ بظاہر مودی کے اندر شخصی خوبیاں ہیں مگر وہ عوام کو صاف ستھری حکومت دیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ صاف ستھرا ہندوستان بنانے کا منصوبہ رکھنے والے وزیراعظم کو صاف ستھری حکمرانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھا جائے تو بلاشبہ ان کی دیگر کاوشیں بھی کامیاب ہوں گی۔ ایونٹ منیجر کے طور پر خود کو مقبول کرنے سے زیادہ عوامی زندگیوں میں کامیابی و ترقی کے منصوبوں کو روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے۔ مودی کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے نتائج ابھی منظر عام پر نہیں آئے ہیں اور جب معاشی ترقی کے نتائج سامنے آنے شروع ہوں گے تو عوام کو معلوم ہوگا کہ صاف صفائی کا درس دینے والوں کی حکومت میں کتنا کچرا پڑا ہوا ہے۔ ہندوستان کو صاف ستھرے مشورے دینے والے حکمراں کی حکومت میں انسانی مساوات اور قانون کی حکمرانی کا سورج کبھی طلوع ہوگا یا نہیں یہ آئندہ کی حکومت کی پالیسیوں سے ظاہر ہوگا۔ ہندوستان کا ہر شہری اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ بدقسمتی سے اس ملک میں زورآور سیاستدانوں کے لئے حکومت کی پالیسیاں اور قانون کچھ اور ہوتا ہے، کمزور اور غریب عوام کے لئے کچھ اور ہے۔ نریندر مودی نے عوام سے ان کی رائے طلب کی ہے۔ اس موقف کے حوالے سے کسی عام شہری یا غیر خواندہ سے بات کریں تو معلوم ہوگا کہ ملک کی ترقی کی رفتار کس قدر سست روی سے جاری ہے۔ دارالحکومت دہلی جو فکری اور سیاسی تحریکوں اور قومی جذبوں کا مرکز ہے وہاں اب ایونٹ منعقد کرنے والوں کا راج ہے تو سوشیل میڈیا کا استعمال عام ہوگا جو حکمراں فیس بُک فرینڈس کی تعداد میں اضافہ کرنے میں مصروف ہو تو ملک کا دامن کرپشن کے داغ دھبوں سے بالکل پاک کس طرح ہوسکے گا۔
شہر حیدرآباد اسمارٹ سٹی کیسے بنے گا
تلنگانہ حکومت اور اس کے اداروں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شہر حیدرآباد کو اسمارٹ سٹی بنانے کا ایک سے زائد مرتبہ اظہار خیال کیا ہے مگر شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں بکھرے پڑے کچرے کے ڈھیر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تبدیلی ہرگز نہیں آئے گی۔ مرکزی سطح پر وزیراعظم نے صاف صفائی کے لئے ’’سوچھ بھارت‘‘ مہم کا آغاز کیا جس میں حصہ لیتے ہوئے تلنگانہ حکومت کے وزراء کے علاوہ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے بھی صاف صفائی مہم چلائی۔ ٹی وی کیمروں اور صحافیوں کی نظروں کے سامنے صفائی کا عملی مظاہرہ کرنے والے قائدین کو اس حقیقت کا اندازہ نہیں ہے کہ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں بلدیہ کے عملہ کی لاپرواہی سے کس قدر کچرا پڑا ہے۔ تبدیلی کی خواہش تلنگانہ کے عوام کے دلوں میں موجزن ہے جو کچھ ہورہا ہے سب اس سے نالاں ہیں۔ حکومت اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ گندگی، عدم صفائی سے شہر میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ صحت عامہ کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اس پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو ہر کام میں اپنا ہدف مقرر کرنا ہوگا۔ بلدیہ کی کارکردگی ہمیشہ کی طرح بدنام ہے تو شہر حیدرآباد کو اسمارٹ سٹی بنانے کی باتیں مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں۔ تلنگانہ کے قیام اور اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھی حالات بہتر نہیں ہوسکتے تو پھر عوام کے سامنے بلدی انتخابات بھی ہیں جس میں اُنھیں ووٹ دینے کا موقع ملے گا تو وہ اپنی بہتر صاف ستھری زندگی کے لئے ووٹ دیں گے۔ سرکاری سطح پر سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ حکمرانوں کی کمزوریوں سے سب سے زیادہ فائدہ شاطر قسم کے بیوروکریٹس ہی اُٹھاتے ہیں۔