اِس قدر اُکتا گیا دل جھوٹے وعدوں سے مرا
جب حقیقت سامنے آئی تو افسانے لگے
ریلوے کو خانگیانے کی کوشش ؟
مرکز کی نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہی وعدوں اور اعلانات سے انحراف کرنے سے بھی گریز نہیںکریگی یا اسے یہ احساس ہے کہ وہ جب بھی جیسا بھی فیصلہ کرلے ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کے اس کے پاس کئی ہتھکنڈے موجودہیں۔ ایک تازہ ترین تبدیلی میں مرکزی حکومت کو اس کی قائم کردہ ایک کمیٹی نے ہی ایک ایسی سفارش پیش کی ہے جس کے نتیجہ میں ہندوستانی ریلویز کو بھی خانگی شعبہ کے حوالے کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔ کچھ ماہ قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ اعلان کیا تھا کہ انڈین ریلویز قوم کا اثاثہ ہے اور اسے خانگی شعبہ کے حوالے نہیں کیا جائیگا ۔ اس وقت یہ اندیشے شدت اختیار کرچکے تھے کہ ریلویز کو خانگی شعبہ کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے لیکن شائد حکومت کیلئے وہ وقت موزوں نہیں تھا اس لئے خود وزیراعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ریلویز کو خانگی ہاتھوں میں نہیں سونپا جائیگا ۔ تاہم اب حکومت کی قائم کردہ کمیٹی نے ہی ایک ایسی رپورٹ پیش کردی ہے جس پر عمل آوری کے نتیجہ میں ریلویز جیسے اہم ترین شعبہ میں بھی خانگی شعبہ کی بتدریج دخل اندازی شروع ہوجائیگی اور بالآخر وہ وقت بھی آسکتا ہے جب قوم کا یہ اثاثہ خانگی ہاتھوں میں چلا جائے ۔ بیبیک دیب رائے نیتی آیوگ کے رکن ہیںجو وزیر اعظم کی قیادت میں کام کر رہا ہے ۔ ان کی قیادت میں ریلوے میںاصلاحات کی سفارش کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ اس کمیٹی نے 300 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی ہے جس میں حالانکہ واضح انداز میں یہ سفارش نہیں کی گئی ہے کہ ریلویز کو خانگی ہاتھوںمیںسونپ دیا جائے تاہم ایسی سفارشات ضرور کی گئی ہیںجن پر عمل آوری کے نتیجہ میںلازمی طور پر ریلویز میں خانگی شعبہ کا رول شروع ہوجائیگا ۔ دیب رائے کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ریلویز کی مالی حالت انتہائی خستہ ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ریلوے کی مالی حالت صرف چند برسوں میںاتنی خراب کیسے ہوگئی ۔ جس وقت لالو پرسادیادو ریلوے کے وزیر تھے اس وقت ریلوے نفع میںچل رہا تھا اور شائد یہی وجہ تھی کہ لالو پرساد یادو کو آئی آئی ایم میںلکچر کیلئے مدعو کیا گیا تھا ۔ اب حکومت اور اس کی تشکیل کردہ کمیٹی یہ کہہ رہی ہے کہ ریلوے کی معاشی حالت نازک ہے ۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حالانکہ ریلوے کو خانگیانے کی تجویز واضح انداز میں نہیںپیش کی ہے لیکن بالواسطہ طور پر جو تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ خانگی شعبہ کے ہاتھوں میں ریلویز کو سونپ دینے کی راہ ہی ہموار کرتی ہیں۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ داخلی ذرائع پیداوار کو نہ صرف بہتر بنانے کی ضرورت ہے بلکہ مالیہ حاصل کرنے کے مختلف طریقہ بھی اختیار کرنے ہونگے تاکہ دستیاب وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنایا جاسکے ۔ اس کمیٹی نے ریلوے کیلئے علیحدہ بجٹ پیش کرنے کی روایت کو بھی ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور کہا ہے کہ ٹرینوں کو چلانے کے امور کو خانگی شعبہ کے حوالے کیا جاسکتا ہے ۔ یہ ایسی تجاویز ہیں جن کے نتیجہ میںریلویز بالآخر خانگی ہاتھوںمیںچلاجائیگا ۔ ہندوستانی ریلویز دنیا کے بڑے ریل نیٹ ورک میں شمار ہوتا ہے اور یہاں کروڑ ہاافراد روزآنہ ریلویز کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس شعبہ کیلئے علیحدہ بجٹ پیش کیا جاتا ہے اور اس میں بتدریج بہتری اور ترقی بھی ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میںاگر ریلویز کو خانگی شعبہ کے حوالے کیا جاتا ہے تو اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مختلف امور میںعوام پر مسلسل بوجھ عائد کرنے والی حکومت اب اس شعبہ کو بھی خانگی شعبہ کے حوالے کرتے ہوئے عوام پر بوجھ میںمزید اضافہ ہی کرنا چاہتی ہے ۔ جہاں تک ریلویز کے مالیہ کی خستہ حالی کا سوال ہے اس پر حکومت کو ایسا کچھ کرناچاہئے جس کے نتیجہ میں عوام پر بوجھ بھی عائد نہ ہونے پائے اور مالیہ کی صورتحال بھی بہتر ہوجائے ۔ اس سلسلہ میں سابق وزیر ریلوے لالو پرساد یادو کی جانب سے اختیار کئے گئے طریقہ کار سے ایک بار پھر استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں سیاسی اختلافات کو رکاوٹ بننے کا موقع نہیں دیاجانا چاہئے ۔ حکومت کا مطمع نظر صرف ریلویز کی بہتری ہونی چاہئے۔
ہندوستان کا وسیع ترین قومی اثاثہ اگر خانگی ہاتھوں میںچلا جاتاہے تواس سے خانگی اداروںکوکروڑ ہا روپئے کا فائدہ مل جائیگا اور اس کا بوجھ راست عوام پر عائد ہوگا ۔ آزادی کے بعد سے مسلسل حکومتوںنے عوام کے تعاون سے جو قومی اثاثہ تیار کیا ہے اسے خانگی شعبہ کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ ہندوستانی قوم کے ساتھ دھوکہ کرنے کی کوشش کے مترادف ہوگا ۔ خود وزیراعظم نے یہ تیقن دیا تھا کہ ریلویز کو خانگی ہاتھوںمیں سونپنے کی کوشش ہرگز نہیں کی جائیگی اور یہ قومی اثاثہ ہے ۔ اب دیب رائے کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر وزیر اعظم کو اپنے وعدہ سے انحراف نہیں کرنا چاہئے۔ قوم کے وسیع ترمفاد کو ذہن میںرکھتے ہوئے اس کمیٹی کی تفصیلی رپورٹ کو یکسر مسترد کردئے جانے کی ضرورت ہے ۔ اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے قومی اثاثہ کے تحفظ میں اپنی سنجیدگی کاحکومت کو ثبوت پیش کرنا چاہئے ۔
شرح سود میںکمی کے امکانات
وزیر فینانس مسٹر ارون جیٹلی نے اس امیدکااظہار کیا کہ عوامی شعبہ کے بینکوںکی جانب سے آئندہ چند ہفتوں میں قرضہ جات پر سود کی شرحوں میںکمی کی جاسکتی ہے ۔ وزیر فینانس نے کہا کہ اس سلسلہ میں بہتر مانسون کا انتظار کیا جا رہا ہے اور حالات پوری طرح سے سازگار ہیں جن کی بنیاد پر بینکوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سود کی شرحوں میں کمی کریں۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران ریزرو بینک کی جانب سے سود کی شرحوں میں 0.75 فیصد تک کٹوتی کی گئی ہے لیکن عوامی شعبہ کے بینکوں نے اس کا فائدہ قرض دہندگان تک پہونچانے کی بجائے اپنی بیلنس شیٹ کو مستحکم کرنے کو ترجیح دی تھی ۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران بینکوں نے اپنے مالیہ کو مستحکم کرلیا ہے اور وہ عوام تک سود کی شرح میں کمی کے فوائد پہونچانے میں ناکام رہے ہیں۔ وزیر فینانس کے بموجب بینکوں کی حالت میں گذشتہ چند مہینوں میں بہتری آئی ہے ۔ واقعتا اگر بہتری آئی ہے تو اس کے ثمرات قرض دہندگان تک پہونچنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح عالمی مارکٹ میں تیل کی قیمتوںمیںکمی آئی تھی لیکن حکومت نے اس کا فائدہ عوام تک پہونچانے کی بجائے اکسائز ڈیوٹی میںاضافہ کردیا تھا اور تیل کمپنیوں کے خزانے بھردئے تھے اسی طرح اب بینکوں کی جانب سے بھی عوام تک فوائدپہونچانے کی بجائے اپنی بیلنس شیٹ کو مستحکم کرنے پر ہی توجہ دی گئی ہے ۔ شرح سود میںکمی کے نتیجہ میں معاشی سرگرمیوںمیںاضافہ ہوسکتا ہے اور یہ اضافہ جہاں روزگار کے مواقع پیدا کرسکتا ہے وہیںملک کی جملہ معاشی صورتحال کو بھی بہتر بناسکتا ہے ۔ گذشتہ ایک سال میں معاشی حالت میںکوئی سدھار دیکھنے میں نہیں آیا ہے اور اس کو یقینی بنانے کیلئے بینکوں کو اپنا رول بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ بینکس اگر اپنے بیلنس شیٹ کے استحکام پر ہی توجہ دیتے رہیں گے تو اس کے نتیجہ میںملک کی معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کی کوششیں بے اثر ثابت ہوسکتی ہیں۔