ریاست میں قدم جمانے بی جے پی کوشاں‘ ٹی آر ایس کی چوکسی ضروری

کے سی آر حکومت کے خلاف مسلسل پروپگنڈہ مہم کا آغاز ۔ ریاستی حکومت کیلئے انتخابی وعدوں کی تکمیل اہمیت کی حامل
حیدرآباد 22 جنوری ( این ایس ایس ) بی جے پی کے ریاستی عہدیداروں کا دو روزہ اجلاس بھدراچلم میں 20 اور 21 جنوری کو منعقد ہوا تھا جس میں ریاست میں پارٹی کو مستحکم کرنے کیلئے کچھ فیصلے کئے گئے ۔ پارٹی کا منشا ریاست میں 2019 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے ۔ مرکزی سطح پر بھی بی جے پی ریاست میں اپنا موقف مستحکم کرنا چاہتی ہے ۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہ گیا ہے کہ ریاست میں پارٹی کو مستحکم کرنا اور حکومت تشکیل دینا ہی بی جے پی قیادت کا منشا ہے ۔ پارٹی قیادت ایسا لگتا ہے کہ اس سمت میں کام شروع کرچکی ہے اور حالیہ کچھ واقعات سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ حالانکہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کیلئے ابھی 30 ماہ کا وقت باقی ہے ٹی آر ایس کے کئی کٹر حامیوں کا ماننا ہے کہ پارٹی اور حکومت دونوں ہی کو بی جے پی سے پیدا ہونے والے چیلنج سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔ ٹی آر ایس کا ریاست میں بی جے پی سے اتحاد ہے ۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے حالانکہ کئی فلاحی اسکیمات کا اعلان کیا ہے اور انتظامی اقدامات کئے ہیں تاکہ عوام کی تائید حاصل کی جاسکے ۔ ریاست میں جملہ 31 اضلاع قائم کردئے گئے ہیں اور انتظامیہ کو عوام سے اور قریب کردیا گیا ہے ۔ اسے چیف منسٹر کی بڑی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے جو سماج کے مختلف طبقات کیلئے کسی نہ کسی طرح کی اسکیمات کا اعلان کرتے جا رہے ہیں حالانکہ ان کا پارٹی کے منشور میں کوئی ذکر نہیں تھا ۔ اس کے باوجود ٹی آر ایس کے حامیوں کا ماننا ہے کہ پارٹی قیادت اور ارکان اسمبلی کو بی جے پی کے عزائم کے تعلق سے قبل از وقت منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے ریاست میں مستحکم ہونے سے روکا جائے ۔ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے اس کیلئے ہمہ جہتی مہم شروع کر رکھی ہے ۔ پہلے عوام کو یہ یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ مرکز کی جانب سے ریاست میں ترقیاتی سرگرمیوں کیلئے بھاری رقومات جاری کی جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت مرکز کے فنڈز کو استعمال تک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور یہ موثر ڈھنگ سے کام نہیں کر رہی ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مرکز کی جانب سے جاری کئے جانے والے فنڈز عوام تک نہیں پہونچ رہے ہیں۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ اور تقریبا تمام پارٹی قائدین بشمول مرکزی وزرا ایک منظم انداز میں یہ مہم چلا رہے ہیں اور ٹی آر ایس حکومت کو اس پروپگنڈہ کا جواب دینے اور چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کی حکمت عملی کا سوریا پیٹ میں امیت شاہ کے جلسہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس جلسہ میں انہوں نے ادعا کیا تھا کہ مرکز نے گذشتہ دو سال میں تلنگانہ کیلئے 90,000 کروڑ روپئے جاری کئے تھے اور ٹی آر ایس حکومت ان کو استعمال نہیں کر پائی ہے ۔ تاہم ریاستی وزیر فینانس ایٹالہ راجندر نے اس کا جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ مرکز نے 36,000 کروڑ سے زائد رقم جاری نہیں کی ۔ تاہم امیت شاہ اور دوسرے قائدین اپنی بیان بازیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اور موقع پر مرکزی وزیر کرن رجیجو نے کہا تھا کہ مرکز کی جانب سے فنڈز جاری کئے جا رہے ہیں لیکن وہ تلنگانہ میں عوام تک نہیں پہونچ رہے ہیں۔ اس طرح کے بیانات دوسرے قائدین نے بھی دئے ہیں۔ ٹی آر ایس حامیوں کا ماننا ہے کہ ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ریاستی حکومت کیلئے وقت آگیا ہے کہ وہ انتخابات کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرے ۔ خاص طور پر ڈبل بیڈ روم مکانات کی فراہمی ‘ کے جی تا پی جی مفت تعلیم ‘ غریبوں کیلئے نگہداشت صحت جیسی سہولیات اور دلتوں میں اراضیات کی تقسیم کے وعدوں کو پورا کیا جائے ۔