ریاست میں صدر راج اور اسمبلی انتخابات میں تاخیر کا امکان

کچھ بھی نا ممکن نہیں ۔ ڈگ وجئے سنگھ کا بیان ۔ دو ریاستوں کے وجود میں آنے کے بعد اسمبلی چناؤکا اشارہ

نئی دہلی 24 فبروری ( پی ٹی آئی ) ریاست کے دونوں علاقوں میں صورتحال غیر یقینی بنی ہوئی ہے جبکہ کانگریس نے ریاست کی تقسیم کے خلاف بطور احتجاج چیف منسٹر کی حیثیت سے کرن کمار ریڈی کے مستعفی ہوجانے کے بعد آندھرا پردیش میں آج صدر راج کے نفاذ کے امکانات کو مسترد نہیں کیا ہے ۔ ساتھ ہی مرکزی الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بھی اشارہ دیا ہے کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا امکان کم ہی ہے ۔ کل ہند کانگریس کے جنرل سکریٹری و آندھرا پردیش میں کانگریس امور کے نگران مسٹر ڈگ وجئے سنگھ نے کرن کمار ریڈی کے جانشین کے انتخاب کے معاملہ میں بھی کسی طرح کا اظہار خیال کرنے سے گریز کیا ہے ۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران اس استفسار پر کہ آیا ریاست میں صدر راج نافذ کیا جاسکتا ہے ؟ کہا کہ کچھ بھی خارج از امکان نہیں ہے ۔ اس سوال پر کہ کرن کمار ریڈی کا جانشین کون ہوگا انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں تبادلہ خیال کیا جارہا ہے اور بہت جلد اس تعلق سے معلوم ہوجائیگا ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ مارچ کے پہلے ہفتے سے ہی ضابطہ اخلاق نافذ ہوسکتا ہے ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا نئی حکومت اگر قائم کی جائے تو کیا اس کے پاس کام کرنے کیلئے مناسب وقت ہوگا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسٹر سنگھ نے کرن کمار ریڈی کا کانگریس میں بھی خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ انہیں کانگریس سے خارج نہیں کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک کرن کمار ریڈي کا سوال ہے انہیں خارج نہیں کیا گیا ہے ۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر استعفی دیا ہے ۔ ان کی کانگریس میں واپسی کا خیر مقدم کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس سے جن چھ ارکان پارلیمنٹ کو خارج کیا گیا ہے اگر وہ پارٹی میں واپس ہونا چاہتے ہیں تو ان کے مسئلہ پر بھی ہمدردی سے غور کیا جائیگا ۔ اس دوران کانگریس ترجمان مسٹر ابھیشیک سنگھوی نے کہا کہ سیاست اور حکمرانی میں کسی خلا کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا کانگریس پارٹی ریاست میں صدر راج نافذ کرنا چاہتی ہے یا کوئی اور امکان ہے انہوں نے کہا کہ آپ چاہے اسے کارگذار کہیں یا صدر راج کہیں یا کوئی نئی حکومت کا نام دیا جائے حکمرانی چلتی رہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دستور کے مطابق جو کچھ بھی مناسب ہوگا وہ کیا جائیگا ۔ یہ فارمولا آندھرا پردیش کیلئے بھی ہوگا اور دہلی کیلئے بھی ۔ اس دوران یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ تلنگانہ ریاست اور آندھرا پردیش میں اسمبلی انتخابات لوک سبھا کے ساتھ بیک وقت منعقد کرنے شائد مشکل ہونگے ۔ سرکاری ذرائع نے کہا کہ آندھرا پردیش کی تقسیم کا عمل مکمل ہونے کیلئے کم از کم تین تا چار ماہ کا وقت درکار ہوگا جیسا کہ اترکھنڈ ‘ چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کی تشکیل کے وقت ہوا تھا ۔ ایسے میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں اسمبلی انتخابات کا عام انتخابات کے ساتھ بیک وقت انعقاد ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ لوک سبھا کے انتخابات امکان ہے کہ غیر منقسم آندھرا پردیش کے خطوط پر ہی سارے ملک کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی فیصلہ مرکزی حکومت کے ساتھ مشاورت کے ذریعہ کیا جائیگا ۔ غیر منقسم آندھرا پردیش میں لوک سبھا کی 42 نشستیں ہیں جن میں 25 نشستیں سیما آندھرا علاقہ میں اور 17 تلنگانہ میں ہیں ۔ تقسیم کے بعد آندھرا پردیش میں اسمبلی کی 175 اور تلنگانہ میں 119 نشستیں ہونگی ۔

یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ جب تک تقسیم ریاست کے تمام عمل کو مکمل کرتے ہوئے دو ریاستیں قائم نہیں ہوجاتیں اس وقت تک آندھرا پردیش کو صدر راج کے تحت کردیا جائیگا جیسا کہ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے سفارش کی ہے کیونکہ چیف منسٹر مسٹر کرن کمار ریڈی نے استعفی پیش کردیا ہے ۔ اس بات کا امکان کم ہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ گذشتہ دس سال سے ریاست میں حکمرانی کرنے والی کانگریس کرن کمار ریڈی کے جانشین کی حیثیت سے کسی اور لیڈر کا انتخاب کریگی ۔ کرن کمار ریڈی اسمبلی کی رکنیت اور کانگریس پارٹی دونوں ہی سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کے تعلق سے کوئی فیصلہ مرکزی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں کیا جائیگا ۔ ملک کی 29 ویں ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بل کو لوک سبھا میں 19 فبروری کو منظوری دی گئی جبکہ دوسرے دن راجیہ سبھا میں منظوری ملی ۔