ریاستی یونیورسٹیوں کو مرکزی یونیوسٹیوں کے خطوط پر چلانے کا اشارہ

حیدرآباد۔22جولائی (سیاست ڈاٹ کام)ریاست تلنگانہ کی یونیورسٹیاں بہت جلد انتظامی اور تعلیمی انداز کارکردگی کے سلسلہ میں مرکزی یونیورسٹیوں کی راہ اختیارکرلیں گی کیونکہ چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھررائو اس خصوص میں اشارے دے رہے ہیں۔ چیف منسٹر نے بتایا ہے کہ یونیورسٹیوں کا موجودہ انداز کارکردگی   تبدیلی کامتقاضی ہے۔ یہ بات بے حد ضروری ہے کہ تمام یونیورسٹیوں کیلئے ایک ہی چانسلر کے طریقہ کار کو ترک کردیاجائے ۔ چندرشیکھررائو ریاست کی یونیورسٹیوں کے لئے مختلف چانسلرس کے تقرر کو ترجیح دے رہے ہیں ۔جن کو ان کی مہارت اور تجربہ کی بنیاد پر مختلف شعبوں سے منتخب کیا جائے گا۔چیف منسٹر نظام تعلیم میں اصلاحات چاہتے ہیں اور وہ اس کے ایک حصہ کے طورپر اس اقدام کو بھی ضروری متصور کرتے ہیں۔ فی الوقت گورنر تمام ریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں ۔جبکہ مرکزی یونیورسٹیو ں میں سے ہر یونیورسٹی کے لئے علحدہ چانسلر ہوتا ہے اور اس عہدہ پر ایسی شخصیت کا تقرر کیا جاتا ہے جس کو مختلف شعبوں میں سماج کے لئے تعلیم اور تحقیق سے متعلق گرانقدر خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہو۔

ایک عہدیدار نے بتایا’’ چیف منسٹر ریاستی یونیورسٹیوں کے لئے بھی اسی طرح کے نظریہ کو اپنانے کو ترجیح دے رہے ہیں‘‘ انہوںنے اس بات کو خارج از بحث قرار دیا کہ چیف منسٹر اپنے آپ کو تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر مقرر کرلینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔تاہم انہوںنے کہاکہ ریاستی حکومت یہ چاہتی ہے کہ اسے چانسلرس اور وائس چانسلرس کے تقررات کے سلسلہ میں مزید اتھاریٹی دی جائے کیونکہ ’ ’ وہ منتخبہ نمائندوں کے سوال پرذمہ دار اور عوام کے لئے جوابدہ ہیں ‘‘2011 تک ریاستی حکومت کو اپنی پسند کے کسی بھی امیدوار کے تقرر کی آزادی تھی۔ لیکن بعدمیں یہ طریقہ کار بدل دیاگیا تھا اور اس بات کا اختیار گورنر کے تفویض کردیاگیا تھا۔ یہ بظاہر اس وقت کے چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی اور ڈپٹی چیف منسٹر دامودھر راجہ نرسمہا کے درمیان مبینہ اختلافات کی وجہ سے ہوا تھا۔ تاہم آندھراپردیش یونیوسٹیز ایکٹ میں ترمیمات کی ضرورت ہے اور حکومت گذشتہ کئی مہینوں سے اس پہلو پر کام کررہی ہے۔ مزید یہ کہ اس قانون میں ایسی تبدیلیاں اس لئے بھی ضروری ہیںتاکہ نئی ریاست کے تقاضوں کی تکمیل ہوسکے اور اس ریاست کے لئے حسب ضرورت قانون کی تدوین عمل میں لائی جاسکے۔