ریاستی حکومت کا وجود کاغذی حد تک محدود

حیدرآباد 23 فبروری (پی ٹی آئی) آندھرا پردیش کی تقسیم کا عمل شروع ہوچکا ہے کہ اب اس ریاست میں حکومت کا وجود صرف کاغذی حقیقت تک محدود رہ گیا ہے۔ گورنر نے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کا استعفی قبول کرتے ہوئے اعلامیہ بھی جاری کردیا ہے چنانچہ عملی مقاصد کیلئے اب حکومت کا کوئی وجود ہی نہیں رہا ہے۔ کرن کمار ریڈی نے ریاست کی تقسیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 19 فبروری کو استعفی دیا تھا جس پر گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے مرکز کو فی الفور رپورٹ روانہ کی تھی اور ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔ گورنر نے اپنی درخواست پر مرکز کے جواب کا دو دن تک انتظار کیا لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا اور اسی طور پر انہوں نے 21 فبروری کو اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مجلس وزراء کا استعفی منظور کرلیا تھا۔ کرن کمار ریڈی نے نہ صرف چیف منسٹر کے عہدہ سے استعفی دیا تھا بلکہ کانگریس پارٹی چھوڑ نے کا اعلان بھی کیا تھا۔ بعدازاں ان کے چار یا پانچ کابینی رفقاء نے بھی حکمراں جماعت سے علحدگی کا اشارہ دیا تھا۔ گورنر نے کرن اور ان کی مجلس وزراء میں شامل رفقاء کو متبادل انتظامات تک اپنے عہدوں پر فرائض انجام دینے کا مشورہ دیا تھا جہاں سے صورتحال نے ایک عجیب موڑ اختیار کرلیا کیونکہ کرن کمار ریڈی اب حتی کہ برائے نام نگرانکار چیف منسٹر کے فرائض انجام دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔ کرن پہلے ہی اپنے دفتر کے تمام اعلی عہدیداروں کے تبادلے کرچکے تھے اور سرکاری بنگلہ کا تخلیہ بھی کردیا تھا۔ ایک اعلی سرکاری عہدیدار نے کہا کہ ’’وہ (کرن ریڈی) ہم سے روزمرہ کی تفصیلات کی سماعت کرنے سے بھی گریز کررہے ہیں‘‘۔

لیکن اس صورتحال سے کئی وزراء بالخصوص سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والوں کوسخت مایوسی ہوئی ہے۔ کیونکہ وہ اگر چہ تکنیکی اعتبار سے وزیر ہیں لیکن کوئی بھی عہدیدار ان کی ہدایات و احکام پر عمل کرنے تیار نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے وزراء نئی ریاست کے قیام کا جشن منانے میں مصروف ہیں۔ دہلی میں کیمپ کئے ہوئے ایک وزیر سے ربط پیدا کئے جانے پر انہوں نے کہا ’’ ہم وزیر ہیں یا نہیں ہیں یہ بات اب شائد ہی کوئی اہمیت رکھتی ہے‘‘ لیکن تمام قائدین نے حکومت کا فیصلہ کانگریس پارٹی ہائی کمان کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔ ابتداء میں نئی دہلی سے اگرچہ یہ اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ مرکز اس ریاست میں صدر راج کے نفاذ پر غور کررہا ہے کیونکہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات کیلئے بمشکل دو ماہ باقی رہ گئے ہیں فیصلہ سے قبل صورتحال کا بغور جائزہ لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ چند ریاستی وزراء اپنی پارٹی سے ارکان اسمبلی کے امکانی انحراف کو روکنے کیلئے چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے ہائی کمان سے نمائندگی کررہے ہیں۔ آندھرا پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر اور وزیر ٹرانسپورٹ بوتسہ ستیہ نارائنا اور وزیر زراعت کنا لکشمی نارائنا چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے اہم اور طاقتور دعویداروں کی حیثیت سے ابھرے ہیں لیکن آنم رام نارائن ریڈی اور این رگھوویرا ریڈی بھی سیما آندھرا کے دیگر اہم امیدواروں میں شامل ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ کنا لکشمیا نارائنا نے گذشتہ روز نئی دہلی میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کی اور چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے اپنا ادعاء پیش کیا تاہم سونیا گاندھی نے اس کی درخواست قبول کرنے سے انکار کردیا۔سیما آندھرا کے تقریباً ایک درجن ارکان اسمبلی پہلے ہی کانگریس چھوڑ چکے ہیں۔ چند تلگودیشم میں شامل ہوئے اور چند دوسرے فی الحال کرن کمار ریڈی کی طرف سے نئی پارٹی کے امکانی قیام کا انتظار کررہے ہیں ۔

کرن کمار کی طرف سے نئی پارٹی کے قیام کی صورت میں کم سے کم نصف درجن وزراء اور متعدد ارکان اسمبلی کانگریس سے منحر ہوجائیں گے۔ چند تلگودیشم میں جانے کے امکانات پر بھی غور کررہے ہیں۔ ایک سینئر رکن اسمبلی نے کہا کہ جن کو تلگودیشم یا وائی ایس آر کانگریس پارٹی میں داخلہ نہیں مل سکا اُن کے پاس کانگریس میں ہی برقرار رہنے کے سواء کوئی دوسرا راستہ نہیں رہے گا۔