ریاستی اقلیتی کمیشن سے حکومت کی عدم دلچسپی کا ثبوت

موجودہ آفس کے تخلیہ کی ہدایت ، کمیشن اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال
حیدرآباد۔20 جنوری (سیاست نیوز) ریاستی اقلیتی کمیشن سے حکومت کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نے کمیشن کے موجودہ آفس کے تخلیہ کے احکامات جاری کیے ہیں۔ راج بھون کے عقب میں سوماجی گوڑہ پر واقع کمیشن کے موجودہ دفتر کو اِرم منزل کالونی کے ایک کوارٹر میں منتقل کرنے کے لیے جی اے ڈی سے احکامات جاری کیے گئے۔ جی او آر ٹی 166 کے مطابق ریاستی اقلیتی کمشین کا دفتر اِرم منزل کالونی میں کوارٹر نمبر 155 منتقل کردیا جائے گا۔ سکریٹری کمیشن کو فوری تخلیہ کی ہدایت دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت کے ان احکامات نے کمیشن کے ساتھ ٹکرائو کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ریاست آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد اقلیتی کمیشن کی تقسیم کا عمل مکمل نہیں ہوا اور صدرنشین عابد رسول خان اپنے ارکان کے ساتھ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہائی کورٹ میں جب عابد رسول خان نے مئی سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے سلسلہ میں درخواست داخل کی تو حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عابد رسول خان اب کمیشن کے صدرنشین باقی نہیں ہیں جس پر عدالت نے انفرادی حیثیت سے درخواست داخل کرنے کی ہدایت دی۔ کمیشن کو حکومت کی جانب سے تقریباً 27 لاکھ روپئے کی ادائیگی باقی ہے اور عابد رسول خان شخصی طور پر یہ اخراجات برداشت کررہے ہیں۔ مئی سے تنخواہوں اور بجٹ کی عدم اجرائی کے سلسلہ میں انہوں نے شخصی طور پر عدالت میں درخواست داخل کی جو ابھی زیر التوا ہے۔ حکومت نے کمیشن کی کارکردگی کو ختم کرنے کے لیے مبینہ طور پر تخلیہ کی نوٹس دے دی تاکہ کمیشن مرکزی مقام سے دوردراز کے ایک کوارٹر میں منتقل کردیا گیا۔ عابد رسول خان نے حکومت کے ان احکامات کے جواب میں مکتوب روانہ کیا اور شکایت کی کہ دراصل کمیشن کی کارکردگی کو مسدود کرنا ان احکامات کا مقصد دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے اپنے مکتوب میں کمیشن کی کارکردگی اور موجودہ صورتحال کی تفصیلات پیش کیں۔ عابد رسول خان نے اقلیتوں کو درپیش کئی مسائل پر کمیشن کے صدرنشین کی حیثیت سے مختلف محکمہ جات کو نوٹس جاری کی۔ اوقافی جائیدادوں اور دیگر مسائل پر محکمہ اقلیتی بہبود سے بھی جواب طلب کیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کارکردگی سے اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کو تکلیف ہے اور وہ کسی طرح کمیشن کو غیر کارکرد بنانا چاہتے ہیں۔ اگر حکومت کو اقلیتی کمیشن کی اہمیت کا اندازہ ہے اور اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے تو پھر ڈھائی سال سے اس کی تقسیم اور تشکیل جدید پر توجہ کیوں نہیں دی گئی؟