روہنگیا مسلمان اور عالم اسلام

قیادت خودغرض بے حس ہے ملت کیا کیا جائے
تباہی ایسی ملت کی ہے قسمت کیا کیا جائے
روہنگیا مسلمان اور عالم اسلام
میانمار کے شمال مغربی صوبہ راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے ۔ ان کیلئے نہ جینا آسان ہے اور نہ جان بچا کر بھاگنا سہل رہ گیا ہے ۔ انہیں چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے ۔ انہیں لوٹ مار اور غارت گری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ان پر نقل و حرکت کی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں ۔ ان کی خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ والدین کے سامنے نوجوان لڑکیوں کی عصمت ریزی کی جا رہی ہے ۔ معصوم بچوں کو ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا جا رہا ہے ۔ معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ انہیں مذہبی فرائض کی تکمیل سے روکا جا رہا ہے ۔ ان کے فون استعمال کرنے پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ۔ غرض یہ کہ ان کیلئے نہ جینا آسان ہے اور نہ جان بچانے کیلئے بھاگنا ہی ممکن رہ گیا ہے ۔ نقل مقام کرنے والوں کو بھی راستوں میں ہلاک کیا جا رہا ہے ۔ انہیں صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ ساری دنیا جو انسانیت اور مساوات کا درس دیتی رہتی ہے وہ اس مسئلہ پر توجہ کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ مغربی طاقتیں جہاں خلیجی ممالک میں مرفع الحال عوام کے حقوق کیلئے دہائی دیتی نظر آ رہی تھیں جنہیں صدام حسین کے اقتدار میں عراقی عوام کی آزادی کی فکر تھی جنہیں کرنل معمر قذافی کے اقتدار میں لیبیا کے انتہائی خوشحال عوام کے حقوق کی فکر تھی اور جنہیں بحرین ‘ یمن اور دیگر مسلم ممالک میں عوام کے مفادات کی فکر ہونے کا ادعا کیا جاتا ہے وہ سب کی سب میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے تعلق سے اندھی اور بہری ہوگئی ہیں۔ انہیں یہاں کے مسلمانوں کو پر جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ان کی کوئی فکر لاحق نہیں ہو رہی ہے ۔ وہ اس پر زبان کھولنے کو تیار نہیں ہیں ۔و ہ میانمار کی مسلم دشمن فوجی حکومت کو اس سے باز رکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلم ممالک بھی اس طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ ان مسلمانوں پر مظالم اور مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور اخوت اسلامی کے اصول رکھنے کے باوجود یہ مسلم ممالک ان کی مدد کیلئے آگے آنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے ۔ جس طرح مغربی دنیا روہنگیا مسلمانوں کو نظر انداز کرچکی ہے وہی حال مسلم ممالک کا بھی نظر آتا ہے ۔
میانمار میں جو مسلمان اپنی اور اپنے افراد خاندان کی جان بچانے کیلئے فرار ہونا چاہتے ہیں انہیں بھی آسانی سے بچنے کی راہ دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ بنگلہ دیش سے متصل مغربی سرحدی علاقے میں ان مسلمانوں کے ساتھ میانمار کی فوج اور بدھ راہبوں کی جانب سے انتہائی حوشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے ۔ میانمار میں گذشتہ سال ان مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کی راہ اختیار کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار سنبھالنے والی آنگ سان سوچی بھی اس مسئلہ پر کوئی کارروائی کرنے کو تیار نظر نہیں آتیں۔ وہ اس مسئلہ پر زبان تک کھولنے سے گریزاں ہیں۔ عالمی برادری مجرمانہ غفلت کا شکار ہے ۔ دیگر اقوام یا ذمہ داروں پر الزام ترشی اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم اور اسلامی ممالک نے بھی اس جانب اتنی توجہ نہیں دی ہے جتنی دی جانی چاہئے تھی ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے اس بحران کے آغاز میں خود وہاں کا دورہ کرتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا تھا اور ان مسلمانوں کیلئے راہ نجات تلاش کرنے کی کوشش کی تھی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کسی دوسرے مسلم ملک نے ترک صدر کی اس کاوش میں ان سے تعاون نہیں کیا اور نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ سعودی عرب نے ‘ جو بڑا عرب ملک ہے ‘ میانمار کے مسائل کا شکار مسلمانوں کو اپنے ملک میں بازآباد کرنے کے تعلق سے کچھ اقدامات ضرور کئے ہیں اور ان افراد کو مملکت سعودی عرب میں ممکنہ سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہوسکتیں۔ انہیں اپنے حدود میں معاشی اور سماجی طور پر مستحکم کرنا ان کے مسائل کا حل نہیں ہے ۔
مسلم ممالک کو چاہئے کہ وہ باہمی رابطے اور تعاون کے ذریعہ میانمار کے تمام مسلمانوں کو فوجی مظالم اور بدھسٹوں کی دہشت گردی سے بچانے اور نجات دلانے کیلئے اقدامات کریں۔ ان کیلئے کوئی ایسا منصوبہ تیار کیا جائے کہ جس کے ذریعہ ان مسلمانوں پر مظالم کو روکنے کیلئے میانمار کی فوجی حکومت کو مجبور ہونا پڑے ۔ اس کام کیلئے اگر مسلم ممالک ایک ہوجائیں اور فوجی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر دوسرے ممالک اور عالمی تنظیموں و اداروں کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروائی جاسکتی ہے ۔ اقوام متحدہ بھی روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ میں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں بری طرح ناکام ہے ۔ اس نے اب تک محض بیان بازیوں پر ہی اکتفا کیا ہے اور میانمار کی فوجی حکومت یا بدھسٹ دہشت گردوں کو غیر انسانی مظالم سے روکنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ اس کو بھی مسلم ممالک اپنے اتحاد کے ذریعہ ایسا کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔