روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کیخلاف امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد منظور

 میانمار میں جمہوریت کی بحالی انسانی حقوق اور سکیوریٹی کے تحفظ میں مضمر
 روہنگیائوں کے لیے اپنے دروازے کھول دینے بنگلہ دیش کی ستائش
 سابق سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کوفی عنان کی سفارشات کے اطلاق پر زور
واشنگٹن۔6 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی ایوان نمائندگان نے آج روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی شدید مذمت کی اور حکومت میانمار سے اپیل کی کہ راکھین اسٹیٹ میں اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر کا سلسلہ فوری روکا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے سخت الفاظ میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ابتداء سے ہی مذمت کی ہے۔ اس سلسلہ میں ایوان میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس کے تحت راکھین اسٹیٹ میں انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کی رسائی کو ممکن بنایا جاسکے۔ روہنگیا مسلمانوں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں خوفزدہ ہوکر تقریباً چھ لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش فرار ہوچکے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں ہجرت نے بنگلہ دیش جیسے چھوٹے اور معاشی طور پر غیر مستحکم ملک کو بھی پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ ایوان کے جمہوری وہپ اسٹینی ہویر نے ایک بیان دیتے ہوئے اپیل کی کہ میانمار میں قتل عام کو فوری بند کیا جائے اور اس قرار داد کے ذریعہ ہم میانمار کے قائدین کو ایک سخت پیعام دے رہے ہیں کہ میانمار میں جس طرح جمہوریت کو بحال کیا گیا ہے اسی بحالی کو ہم اس وقت تک حقیقی تصور نہیں کرسکتے جب تک میانمار کے قائدین اپنے وعدوں کے پابند نہ بن جائیں کہ وہاں ہر مذہب، نسل اور رنگ سے تعلق رکنھے والے ہر شخص کے حقوق اور آزادی کا تحفظ کیا جائے گا۔ جمہوریت کی بحالی کا دعوی ان کے اس عمل میں مضمر ہے کہ بلا لحاظ مذہب و ملت وہ ہر ایک کی عزت و احترام کریں۔ ایوان میں قرارداد کو کانگریس میں جو کرائولی اور ایلیٹ اینجل نے متعارف کروایا جس میں میانمار کی فوج اور سکیوریٹی فورسس کے ذریعہ کئے جانے والے حملوں کی زبردست مذمت کی گئی ہے اور یہ خواہش کی گئی ہے کہ تشدد کا سلسلہ فوری مسدود کیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ راکھین اسٹیٹ اس وقت انسانی بحران کا شکار ہے۔
دوسری طرف میانمار کی قائد آنگ سان سوچی سے بھی یہ خواہش کی گئی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں دیانتدارانہ قیادت کو اپنا وطیرہ بنائیں کیوں کہ دیانتدارانہ قیادت کی آج جتنی ضرورت ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں رہی۔ اینجل نے ایوان میں آج یہ بیان دیا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم میانمار کی فوج کے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہیں جہاں وہ یہ استدلال پیش کررہی ہے کہ روہنگیائوں کے خلاف جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ انسداد دہشت گردی کارروائی ہے۔ ہم دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ میانمار کی صورت حال سے غافل نہ رہیں۔ بلکہ یہ کوشش کریں کہ متاثرہ روہنگیائوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کس طرح کی جائے کیوں کہ جب تک یہ صورتحال برقرار رہے گی روہنگیائوں کی ضرورتیں بھی برقرار رہیں گی اور ان کی تکمیل کرنا ہم سب کی دمہ داری ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بنگلہ دیش سے بھی اظہار تشکر کیا کہ اس نے فراخدلانہ رویہ اپناتے ہوئے ایک دو ہزار نہیں بلکہ زائد از چھ لاکھ روہنگیائوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیئے۔ معاشی طور پر کمزور سمجھے جانے والے بنگلہ دیش نے بڑے بڑے ممالک کو اچھا سبق سکھایا ہے۔ جنہوں نے اپنے دروازے روہنگیائوں کے لیے بند کردیئے ہیں۔ مسٹر اینجل نے مزید کہا کہ حکومت میانمار نے بنگلہ دیش کے ساتھ ایک معاہدہ کو قطعیت دی ہے جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو دوبارہ ان کے وطن بھیجا جائے گا تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ کوئی روہنگیا میانمار واپس جانے تیار ہے یا نہیں۔ دوسری طرف کانگریس کی خاتون رکن بیٹی میک کولم جنہوں نے گزشتہ ماہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے کیمپ کا دورہ کیا تھا، نے کہا کہ حقائق معلوم کرنے کے لیے کانگریشنل مشن نے پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کرکے اور وہاں موجود لوگوں سے بات چیت بھی کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ پناہ گزین اس وقت زبردست انسانی بحران سے گزررہے ہیں۔ لہٰذا اس قرارداد کے ذریعہ ہم نے یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ روہنگیائوں کے خلاف کانگریس انسانی حقوق پامال ہونے نہیں دے گی۔ میک کولم نے کہا کہ جیسا کہ ہمارے وفد نے دیکھا کہ اس معاملہ میں ایک ایسا راستہ بھی ہے جو بھلائی کی طرف جاتا ہے، میانمار حکومت اور فوج کو اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کے ایڈوائزری کمیشن کی سفارشات کا فوری طور پر اطلاق کرنا چاہئے۔