آج ساری دنیا میں انسانی حقوق ، انسانی ہمدردی ، رواداری ، پیارومحبت ، احترام آدمیت کے بلند بانگ دعوے ہوتے ہیں۔ اسلامی ممالک پر انسانی حقوق کی پاسداری اور بحالی کے نام پر حملے کئے گئے ، کئی مسلم ممالک کو جھوٹے الزامات لگاکر تباہ و تاراج کردیا گیا ، ان کی معیشت کو خاک میں ملادیا گیا ، جمہوریت اور آزادی کے نام پر ہزارہا معصوموں کا قتل ناحق کیا گیا اور جب برما میں روہنگیائی مسلمانوں پر حکومت اور فوج کا کھلا ظلم ہورہا ہے ، نہتے مسلمانوں کے زندہ تکڑے کئے جارہے ، ان کو جلایا جارہا ہے اس پر مغربی ممالک اور حقوق انسانی کے علمبردار لب کشائی کرنے تیار نہیں۔ عالمی میڈیا جو دنیا کے کسی کونے میں کسی مسلمان کی جانب سے معمولی ظلم ہوجائے تو اس کو دنیا کے سامنے ظاہر کرنے اور اسلام کی شبیہ کو متاثر کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتا وہی عالمی میڈیا آج میانمار کے طول و عرض میں ہزارہا معصوم مسلمانوں کے وحشتناک قتل کئے جانے پر اندھا بنا ہوا ہے ، اس کو کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے۔ بچے بوڑھے ، عورتوں اور مردوں کو زندہ جلایا جارہا ہے ۔ عورتوں کو بے آبرو کیا جارہا ہے ، معصوم بچوں کو درندگی سے تکڑے کیا جارہا ہے ، ان کو گھروں سمیت جلایا جارہا ہے ، گڑے کھودکر برسرعام زندہ دفن کیا جارہا ہے ، ظلم و ستم کا ننگا ناچ ہورہا ہے ، لیکن عالمی میڈیا کو یہ خبر کوئی تہلکہ خیز معلوم نہیں ہوتی ، یوروپ کے وہ امن پسند جو جانور مارنے کو خلاف انسانیت سمجھتے ہیں مسلمانوں کو زندہ درگور کئے جانے پر پرسکون و مطمئن ہیں۔
مسلمان کے خون کی کوئی قیمت نہیں ، اس کی جان کی کوئی اہمیت نہیں، اس کی آبرو کی کوئی پرواہ نہیں ، اس کی معیشت کا کچھ احساس نہیں ، ان پر ظلم و ستم کا کوئی چرچا نہیں اس لئے کہ دنیا کو مسلمانوں کے وجود سے نفرت ہوگئی اور نفرت بھی اسقدر شدید کہ وہ اس خاکدان عالم میں کسی اسلام یا کوئی مسلمان نام کی کوئی چیز سننا یا دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ، وہ اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے ہر سطح سے گرنے تیار ہیں ، اس کاز کیلئے انسانیت سوز اور حیوانیت کا طریقہ اختیار کرنا بھی ان کیلئے روا ہے ۔
روہنگیائی مسلمان وہ بے بس و نامراد اقلیت ہے کہ ان کا ملک ان کو نہ اپنی شہریت دیتا ہے اور نہ ہی اپنے ملک کا شہری تسلیم کرتا ہے ، ان کا کوئی آفیشیل ریکارڈ نہیں ، اگر ان کو ہلاک کیا جائے تو قانوناً ان کو کوئی گرفتار نہ کرسکے گا ۔ وقفے وقفے سے ان پر قیامت خیز حملے ہوتے رہے ، ہر وقت گاؤں کے گاؤں ، بستی کی بستی کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا ، لاکھوں مسلمان قرب و جوار کے ممالک کو راتوں رات ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ سب کچھ لُٹ جانے کے بعد اسلامی ممالک یکے بعد دیگر ے صرف اپنا احتجاج درج کرارہے ہیں، کاش تنظیم اسلامی تعاون کی انسانی حقوق کمیشن عرصہ دراز قبل ہی ان کے قانونی استحکام اور استقرار کے لئے کوششیں کرتیں اور عالمی برادری پر دباؤ ڈالتی ۔ سارا گھر جل جانے کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور سلامتی کونسل میں آواز اُٹھانے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ ۔ یہ ظلم و زیادتی کا پہلا بھیانک طوفان نہیں ہے ۱۷۵۲ء میں جانور ذبح کرنے پر پابندی لگائی گئی ۔ ۱۷۸۲ء میں وہاں کے بادشاہ ’’بودھاپایہ‘‘ نے پورے علاقہ کے مسلمان علماء کو بدجانور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار کرنے پر ان سب کو قتل کردیا ۔ ۱۹۳۸ء جب برما کے بدھ ، برطانوی فوجوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑنے میں مشغول تھے تو گولیوں سے بچنے کیلئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کیا۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد ۱۹۶۲ء میں پہلا قتل عام ہوا جب فوجی حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دیکر ان کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا جو تقریباً ۱۹۸۲ء تک جاری رہا جس میں کم و بیش ایک لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور تقریباً بیس لاکھ مسلمان بنگلہ دیش ، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کئے ۔
۱۹۸۲ء کے سٹیزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے آٹھ لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی مسلمانوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور ان کو اپنے علاقوں سے باہر جانے سے بھی منع کردیا گیا ۔ روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک تاریخ ۱۹۹۷ء میں بھی رقم کی گئی جب ۱۶ مارچ ۱۹۹۷ء کو دن دھاڑے بے لگام بدھ رکھین صوبے کے شہر ٹنراتے میں داخل ہوکر مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگے ، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذر آتش کرنے لگے ۔ مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا گیا۔
۱۵ مئی سے ۱۲ جولائی ۲۰۰۱ء کے دوران مساجد پر حملہ کرکے نمازیوں کو شہید کیا گیا ۔ ۱۱ مساجد ، چار سوسے زائد گھروں کو جلایا گیا ۔ دو سو سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ جب طالبان کی طرف سے بامیان کے مجسموں کو نشانہ بنایاگیا تو اس وقت بھی روہنگیا مسلمانوں پر حملے کی خبریں سامنے آتی رہیں اور بدھ بھکشوؤں نے برما میں موجود تمام مسجدوں کو ڈھادینا چاہا ۔ ۱۹۶۲ء سے ۲۰۱۰ء تک برما فوج کے زیرتسلط رہا ۔ ۲۰۱۱ء میں الیکشن کے نتیجے میں جمہوری حکومت تشکیل دی گئی ، اس دوران روہنگیا مسلمانوں نے اپنے بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کا مطالبہ دہرایا لیکن بڑی سختی سے یہ آواز دبادی گئی ۔ مئی ۲۰۱۲ء میں مسلم کش فسادات کی ایک تکلیف دہ قسط سامنے آئی جب ایک بودھ لڑکی مشرف باسلام ہوئی ، اس کو شہر بدر کردیا گیا ، وہ مسلم آبادی میں پناہ لی ۔ چند دن بعد اس کا قتل ہوگیا، مسلمانوں کے مطابق بدھوں نے اپنی خفت کو مٹانے کے لئے اس کو قتل کیا لیکن الزام مسلمانوں پر آیا اور مسلم اکثریتی علاقوں پر دھاوا بول دیا گیا ، حکومت نے ظالموں کو کھلی چھوٹ دی ، مسلمانوں کا قتل عام ہوا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے قتل عام پر واویلا مچایا ، کسی نے توجہہ نہ دی ، صحافیوں کو روکدیا گیا ، تاہم جو رپورٹ ظاہر ہوئیں ، اس میں دس ہزار مکانات کا ملبہ دکھایا گیا ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسی ہزار مسلمان گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ یہ مسلمان دربدر ہوتے ہوئے بنگلہ دیش پہنچے تو گولیوں سے ان کا استقبال ہوا ۔ جو بنگلہ دیش میں پناہ لئے تھے ان سب کو نکل جانے کیلئے کہا گیا ۔ روہنگیا مسلمان بھٹکتے بھٹکتے انڈونیشیاء ، ملائیشیا ، تھائی لینڈ ، سنگاپور ، سری لنکا اور انڈیا کے دروازوں پر دستک دی ، کسی نے ان کے ساتھ اپنائیت کا مظاہرہ نہیں کیا گویا دنیا کو فکر ہی نہ تھی کہ یہ انسان بھی ہیں اور ان کے کچھ حقوق بھی ہیں سب کو اپنا بارڈر محفوظ اور پناہ گزین سے پاک چاہئے تھا ۔ پھر ۲۰۱۳ء میں ایک بار چشم فلک نے ظلم و زیادتی کا ہولناک منظر دیکھا ۔ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فسادات میں ہزارہا مسلمان بے دردانہ تکڑے کئے گئے ، جلائے گئے ، عزت و آبرو کوتار تار کیا گیا اور ساری دنیا تماشائی بنی رہی ۔ کچھ وقت پرسکون نہیں گزارا کہ آجکل وہی سفاکی ، درندگی ، حیوانیت ، بہمیت کے نظارے سامنے آرہے ہیں ۔ آج کے اس دور میں ایسے سفاکیت کا مظاہرہ شاید کسی نے کیا ہو جو برما کی فوج اور اس کی اکثریت کررہی ہے ۔ ان بے یار و مددگار مسلمانوں کی مدد کرنے سے ہم قاصر ہیں ان کے دکھڑے سننے اور تسلی دینے سے عاجز ہیں ، ان کی ظلم کی داستان دیکھ کر اپنے وجود اور حیات پر افسوس ہوتا ہے ۔ برما کے مسلمانوں کے ساتھ قیامت خیز زیادتیاں ہورہی ہیں اور ہم کو اپنی خوابگاہوں میں میٹھی نیند آرہی ہے ، وہ بھوکے پیاسے اپنے جان بچانے دردبدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور ہم اپنے اہل و عیال کے ساتھ وسیع دسترخوان پر لذیذ غذائیں تناول کررہے ہیں ان کی حالت زار پر ہمیں رونا بھی نہیں آرہا ہے ، ہمارے دل ان کے درد و تکلیف کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے ایمان کے ان مقدس رشتۂ اخوت کو پامال کردیا ، ایمانی غیرت و حمیت ہم میں باقی نہیں رہی ہم ایک زندہ لاش ہیں جس میں قلب و روح کا وجود نہیں ،ہماری عزت و شوکت ، رعب و دبدبہ سب ختم ہوگیا تاحال ہندوستان کے مذہبی قائدین اور تنظیموں نے اخوت ایمانی کا کچھ مظاہرہ نہ کیا حکومت پر دباؤ بنانا تو کجا بعض گوشوں سے ہندوستان میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس برما بھیجنے کی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ اس سے بڑھکر ہندوستان کے مسلمانوں کی ذلت کیا ہوسکتی ہے ؟ افسوس کہ ہندوستان کے کروڑوں کی تعداد میں مسلمان برما کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں حکومت ہند پر دباؤ ڈالنے سے عاجز ہیں جبکہ تادم تحریر ہندوستان کے وزیراعظم برما میں سرکاری دورے پر موجود ہیں۔