روپئے کی قدر میں گراوٹ اور ڈالر کے استحکام سے ہندوستانی معیشت کو شدید نقصان

صورتحال پر فوری قابو نہ پانے پر سنگین حالات سے نمٹنا مشکل ، ماہرین معاشیات کا اظہار تشویش
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔5اکٹوبر(سیاست نیوز) روپئے کی قدر میں گراوٹ آئے یا ڈالر کو استحکام حاصل دونوں ہی صورتوں میں ہندستان کی معیشت کو شدید نقصان ہوگا اور ان حالات میں ہندستانی معیشت کے استحکام کے لئے اقدامات نہ کئے جانے کی صورت میں جو صورتحال پیدا ہوگی اس سے نمٹنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی بلکہ ہندستانی معیشت کی حالت انتہائی ابتر ہوتے ہوئے تیسری دنیا کی مملکتوں کی معاشی صورتحال جیسی ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے روپئے کی قدرمیں آنے والی گراوٹ کو روکنے کیلئے کوئی اقدامات نہ کئے جانے پر معاشی ماہرین میں تشویش کی لہر پیدا ہوچکی ہے اور کہا جا رہاہے کہ یہی صورتحال برقرار رہنے کے سبب حالات سنگین نوعیت اختیار کرسکتے ہیں۔ روپئے کی قیمت میں آنے والی آج کی گراوٹ نے تمام ریکارڈس کو توڑ دیا ہے اور اب کھلے بازار میں روپیہ کی قیمت 74تک پہنچ چکی ہے اور کہا جا رہاہے کہ آئندہ ایک ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت 78 روپئے تک پہنچ سکتی ہے ۔ عالمی بازار میں روپئے کی قدر میں ریکارڈ کی جانے والی گراوٹ کے سبب ہندستان کے معاشی حالات ابتر ہونے کی پیش قیاسی کی جا رہی ہے اور کہا جا رہاہے کہ اگر اندرون دو ماہ حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے کوئی مستحکم اور قابل اثر پالیسی اختیار نہیں کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں روپئے کی قیمت 85 روپئے سے بھی زیادہ گر سکتی ہے۔ تیل کی ڈالر میں خریدی کے سلسلہ کو فوری ترک کرنے کے علاوہ ترکی کی طرح اقدامات کے ذریعہ مقامی کرنسی میں خرید و فروخت کی صورت میں روپیہ کی قدر میں بہتری لائی جاسکتی ہے لیکن ترکی کی طرح سخت گیر اقدامات کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے سخت فیصلے کئے جائیں اور عالمی بازار میں اپنی اشیاء کی جو فروخت ہورہی ہے اسے روپیہ میں فروخت کیا جائے اور جو خریدی ہندستان دیگر ممالک سے کر رہا ہے اسے بھی روپیہ میں ادائیگی کے لئے راضی کرے تو ممکن ہے کہ روپیہ کی قدر میں دوبارہ استحکام پیدا ہوگا کیونکہ سال 2005سے اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو روپیہ کی قدر میں بتدریج صرف گراوٹ ہی ریکارڈ کی گئی ہے اور 2014میں جب ڈالر کی قیمت 66 روپئے تک پہنچ گئی تھی تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے حکومت کی ناکامی قرار دینے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا تھا لیکن 2005سے 2014کے درمیان میں 43.70 سے 66.24 روپئے تک پہنچا تھا لیکن اس کے بعد 2014عام انتخابات سے قبل یو پی اے کی پالیسیوں نے ڈالر کی قیمت کو 59.19 تک پہنچا دیا تھا اور ماہ مئی 2014میں ڈالر کمزور ہونے لگا تھا لیکن ہندستان میں حکومت کی تبدیلی کے اثرات عالمی بازار پر مرتب ہونے کے سبب اب ہندستانی روپیہ کی قدر گھٹ چکی ہے اور اندرون 5سال روپیہ کی قیمت 14 روپئے کی گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے اور آئندہ دو ماہ میں مزید 10 روپئے تک کی گراوٹ کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ روپیہ کی قدر میں گراوٹ اور عالمی بازار میں ڈالر کے استحکام سے عام شہریو ںکی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ عالمی بازار میں روپیہ کی قدر میںپیدا ہونے والی گراوٹ سے درآمدات و برآمدات کی قیمتوں پر کافی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسکے بالواسطہ اثرات اندرون ملک خریداروں پر مرتب ہوتے ہیں۔ڈالر کے عوض ترکی کرنسی لیرا کی گراوٹ کی صورت میں ترکی نے فوری طور پر اقدامات کرتے ہوئے جس طرح اپنی کرنسی کو عالمی بازار میں گراوٹ کا شکار ہونے سے بچانے کے اقدامات کئے اسی طرح کے سخت گیر اقدامات کے ذریعہ ہی روپیہ کی قدر کو مستحکم بنانے کئے جانے ناگزیر ہیں اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں نہ صرف تیل کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا جائے گا بلکہ ان اشیاء کی قیمتو ںمیں بھی اضافہ کیا ہونے کا خدشہ ہے جو دیگر ممالک سے ہندستان پہنچتی ہیں اور اب ان میں میوہ جات بھی شامل ہوچکے ہیں۔ حکومت ہند کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ روپیہ کی قدر میں گراوٹ نہیں آرہی ہے بلکہ ڈالر کی قیمت میں استحکام پیدا ہونے لگا ہے جس کے سبب نہ صرف روپیہ بلکہ دیگر ممالک کی کرنسی کی قدر بھی گھٹتی جا رہی ہے لیکن ڈالر کے استحکام کی بات کرتے ہوئے اس بات کو فراموش کیا جا رہاہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ریال اور دینار کی قیمتوں میں بھی اچھال دیکھا جار ہاہے اور اس کے برخلاف ہندستانی روپیہ کی قدر میں بتدریج گراوٹ ہی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔