مولانا عبدالرحیم بن احمد قرموشی
سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر مشتمل ہے، کلمہ طیبہ ،نماز کا پڑھنا ، زکوٰۃ کا دینا ، روزہ رکھنا اور حج کو جانا ۔ حج مالی اور بدنی عبادت ہے ۔ احادیث میں آتا ہے جو شخص حج کو جاتا ہے اﷲ تعالیٰ غیب سے اُس کی معیشت میں سدھار لاتا ہے ۔ اُس کی زندگی سے افلاس دور ہوجاتا ہے۔ حج سے آنے کے بعد تنگدستی دور ہوجاتی ہے ، اﷲ تعالیٰ رحمتوں سے نواز دیتا ہے کیونکہ وہ خانہ کعبہ اور گنبد خضرا کو دیکھ کر آیا ہے ۔ دونوں کا فیضان اس کی زندگی سے تنگدستی دور کردیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ جسے صحت دیا ہے ، مال و دولت سے نواز ہے ، صلاحیت دیا ہے حج فرض ہوتے ہی حج کو چلے جائے ، پھر زندگی میں کیا انقلاب آجائے پتہ نہیں ۔ عافیت صحت سب سے بڑی نعمت ہے ۔ بچی کی شادی ہونی ہے ، گھر بنانا ہے یہ سارے منصوبے چھوڑ دے ۔اﷲ تعالیٰ روز محشر بھی اپنے دیدار سے مشرف کرے گا ۔ خانہ کعبہ یہ کہے گا اے باری تعالیٰ ! یہ تیرے گھر کو دیکھنے آیا ہے تو اسے اپنے دیدار سے سرفراز فرما۔ حجر اسود کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے مجھے بوسہ دیا ہے تو اس کے گناہ معاف فرما ۔ اﷲ تعالیٰ حجر اسود کے طفیل اس کے گناہوں کو معاف فرمادے گا اور فرمائے گا اے حجر اسود تو گواہ رہنا میں تمام حجاج کو جنت میں داخل کروں گا ۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا ’’جس نے خانہ کعبہ پر نظر ڈالی ، خانہ کعبہ کو دیکھا اﷲ تعالیٰ اُس کے سابقہ تمام گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے ‘‘۔ ابھی طواف نہیں کیا سعی نہیں کیا ، مراسم حج ابھی پورے نہیں کئے مجرد خانہ کعبہ پر نظر پڑی سارے گناہ جیسے سوکھے پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں اسی طرح انسان کے گناہ خانہ کعبہ کو دیکھنے سے ایسے جھڑ جاتے ہیں ۔ اﷲ کے حبیب نے فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ جسے مال و دولت سے سرفراز فرماتا ہے اگر وہ حج نہ کرے تو وہ یہودی مرے یا نصرانی مرے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘ ۔ اﷲ تعالیٰ اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔
سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد عالی ہے ’’جس نے حج کیا اُس نے فریضہ کو پورا کیا ، جس نے دوبارہ حج کیا اَُس نے اپنے رب کو قرض دیا ، جس نے تین حج کیا اﷲ تعالیٰ اُس کے بال کو اُس کے کھال کو اُس کے جسم کو جہنم پر حرام کردیتا ہے‘‘۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حکم ہوا کہ لوگوں کو حج کی دعوت دو ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا ’’اے میرے رب ! میری آواز میں قوت نہیں ، میں کمزور بوڑھا ہوں ‘‘ ۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی کہ ’’اے ابراہیم ! آواز لگاؤ ، آواز لگانا تمہارا کام ہے ، آواز پہونچانا ہمارا کام ہے ‘‘۔ جبل ابوقبیس پر جو صفا کا پہاڑ ہے اس پہاڑ پر چڑھ کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی ۔ اس آواز کو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے سارے عالموں میں پہنچادیا ۔ صلب میں جو تھا ماں کے رحم میں جو تھا ہر ایک کی صدا گونجنے لگی لبیک اللھم لبیک …. یہ اُس کا اظہار ہے ۔ آج کل کی عصری ٹکنالوجی انٹرنیٹ ، موبائیل جیسے ذرائع نہیں تھے لیکن خدائے تعالیٰ کی قدرت کے آگے یہ ٹکنالوجیاں ہیچ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو ایسی طاقت و قوت سے سرفراز فرماتا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے ۔
سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد عالی ہے ’’جس نے حج کیا ، فضولیات سے پرہیز کیا ، جب حج سے لوٹتا ہے تو ایسا ہوتا ہے گویا کہ وہ ماں کی پیٹ سے ابھی پیدا ہوا ہے ‘‘۔
سیدنا عثمان غنی ؓ سرکار دوعالم ﷺ کے ساتھ حج کئے ، حج کے سارے مراسم ادا کئے ۔ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے پردہ فرمانے کے بعد آپ نے حج کے تمام مراسم ادا کئے ، اُس کے بعد آپ مسجد خیف کے پاس اُس وقت ایک درخت تھا اُس کے نیچے بیٹھ کر مسکرارہے ہیں ، قافلہ رکا ہوا ہے ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ امیرالمومنین چلئے حج ہوچکا ہے ، آپ کیلئے قافلہ رکا ہوا ہے ۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں ’’سرکار کے ساتھ میں حج کیا ، سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم تمام مراسم طئے کرنے کے بعد مسجد خیف کے سامنے یہی وہ درخت ہے جہاں بیٹھ کر سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم بیٹھ کر مسکرائے تھے ، سرکار کا مسکرانا مجھے یاد آرہا ہے اور میں اُس عمل کو پورا کررہا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے مسکرانے کی وجہ سے میرا حج ( اب مکمل ہوا ) قابل قبول ہوگیا ‘‘۔
سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کے روضہ کی زیارت کے سلسلے میں آتا ہے ’’جس نے میرے روضہ کی زیارت کی اُس کی شفاعت مجھ پر واجب ہوگئی ‘‘۔ حج کے بعد سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے روضہ پر جانا حج کے مقبول ہونے کی علامت ہے ۔
مدینے طیبہ کے فضائل میں آیا ہے کہ وہاں کی مٹی میں بھی شفا ہے ۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز مدینہ طیبہ پہونچے ، مدینہ طیبہ کے دروازے باب السلام جو اس وقت ہے اَُس وقت جو دروازے تھے اُن دروازوں کو جاتے وقت اور آتے وقت دروازوں کو مس کرتے اور اپنے چہرے کو لگاتے ۔ مصاحبین نے پوچھا کہ آپ اس گرد و غبار کو کیوں اپنے چہرے پر لگارہے ہیں ، آپ نے کہا مدینہ کے گرد و غبار میں شفا ہے اس لئے میں اس کو اپنے چہرے پر مل رہا ہوں ‘‘ ۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ مدینہ طیبہ پہونچے ۔ لوگ آپ سے علمی استفادہ فرمانے کیلئے جوق درجوق آنے لگے ۔ آپ دوسرے دن مدینہ طیبہ سے روانہ ہونے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے اصرار کیا ، آپ رک گئے ۔ تیسرے دن آپ بیچین ہوگئے ، لوگ روکنے پر آپ کہتے ہیں ، اب مجھے مت روکو ۔ آپ روانہ ہوگئے اور مدینہ طیبہ کی حدود سے باہر جانے کے بعد آپ ضروریات سے فارغ ہوئے ۔ اور ارشاد فرمائے کہ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم مدینہ منورہ کی جن گلیوں سے گذرے ہیں ابوحنیفہ کی یہ مجال کہ وہاں حوائج ضروریہ سے فارغ ہو ۔ دو دن تک آپ حوائج ضروریہ سے فارغ نہیں ہوئے ۔ اس احترام و عشق کی بدولت اﷲ نے امام اعظم کے مرتبہ پر فائز کیا ۔ عقیدت سے صحبت سے ، معیت سے اﷲ تعالیٰ علم عطا کرتا ہے ۔ حضرت امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ جب مدینہ منورہ کی گلیوں میں چلتے تو بیچ سے نہ چلتے بازو بازو سے چلتے ، قدم اٹھاتے آہستہ سے رکھتے ۔ لوگ کہتے امام آپ کے چلنے میں تاخیر ہورہی ہے ۔ آپ نے کہا ’’جہاں سرکار مبارک ؐکا قدم مبارک پڑے ہیں میری یہ مجال کے آپ کے قدم مبارک پر میں قدم رکھوں‘‘۔ آپ کے شاگردوں نے آپ کی معیت میں حج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ آپ نے کہا ’’مجھے خدشہ ہے کہ وہاں مجھے موت آجائے تو مدینہ کی سرزمین مجھے نہیں ملے گی ، مجھے یہیں رہنے دو‘‘ ۔ یہ ہمارے اماموں کا اسوہ ہے جن کے ہم مقلد ہیں ۔ جب تک سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم سے سچی عقیدت و محبت نہیں ہوگی ، نہ تو حج قبول ہوگا نہ اور کوئی عبادت قابل قبول ہوگی ۔