مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بنو‘‘۔ (البقرہ۔۱۸۳)
صیام صوم کا مصدر ہے جس کے معنی امساک یعنی رک جانے کے ہیں، شرعی اعتبار سے کچھ چیزوں سے رک جانے کا نام روزہ ہے، کھانے پینے و جائز راہ سے خواہشات نفس کی تکمیل سے ایک مقررہ وقت یعنی صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک رکے رہنا روزہ کہلاتا ہے، ان امور سے رکنے میں اللہ سبحانہ کی رضا اور اس کی خوشنودی مقصود و مطلوب ہو۔ اس عبادت کی روح طہارت نفس اور اسکا تزکیہ ہے، اللہ سبحانہ نے تتقون فرما کر اس حقیقت کو بیان فرمایاہے، طہارت نفس وتزکیہ اورتقویٰ دونوں ہم معنی ہیں۔ تقویٰ انسان کو اعلیٰ انسانی اخلاق کا پیکر بناتا ہے، عبادت صوم سے اس مقصود کی تحصیل کیلئے روزہ کی ادائیگی میں حسن نیت کیساتھ جذبۂ عبودیت کارفرما ہو، اس اہتمام کی وجہ روزے کے ثمرات روزہ رکھنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں، روزہ رکھنے سے بڑے مادی اور روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں، روزہ کی برکت سے تسکین قلب کی نعمت نصیب ہوتی ہے، خواہشات نفسانی کا زور ٹوٹتا ہے اور انسانی نفس جو ہروقت انسان کو برائی پر اکساتا رہتا ہے، اس نفس کی امارہ طاقت بھی کمزور ہوجاتی ہے، معصیت و گناہ کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں، روزہ کی حالت میں بھوک و پیاس سے گزارا جانا اپنے اندر بڑی حکمت رکھتا ہے، بھوکا رکھ کر نفس کو تکلیف دی جائے تو انسان کے سارے اعضاء نفس کی شرارتوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور خواہش نفس کے مطابق نفس کو عمدہ عمدہ غذائیں فراہم کی جائیں تو پھر نفس کے تقاضے اعضاء و جوارح کو برائی کی طرف راغب کرتے ہیں۔ کھاتے پیتے رہ کر نفس کے تقاضوں کی تکمیل کرنے سے قلب انسانی میں تکدر پیدا ہوجاتا ہے جس کے اثرات انسانی اعضاء تک پہنچتے ہیں اور ان سے ایسے اعمال کا صدور ہوتا ہے جو انسان کو اپنے رب کی مرضیات سے غافل کردیتے ہیں۔ روزہ رکھتے ہوئے صرف کھانے پینے اور جائز خواہشات نفس سے دستبردار رہوجانا حصول مقصد یعنی تقویٰ کیلئے کافی نہیں، بلکہ اپنے اعضاء وجوارح کو بھی مرضیات رب کا تابع بنانا ضروری ہوتا ہے، حقیقی معنی میں روزہ وہی ہے جو ظاہر وباطن کے سارے اعضاء وجوارح کو رب کی مرضیات کا پابند بنادے۔رمضان پاک میں روزہ سے یہ تربیت دینی مقصود ہے کہ ایک ماہ کی اس تربیت سے نفس کو رضائے الٰہی کا پابند بنایا جائے تاکہ دیگر مہینوں میں وہ کھاتے پیتے رہ کر بھی اپنے آپ کو نفس امارہ کی شرارتوں سے محفوظ رکھ سکے، اسی لئے روزہ رکھتے ہوئے اگر کسی نادان سے سابقہ پڑجائے تو ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اس سے الجھنے سے اپنے آپ کو بچایاجائے یعنی جواباً کوئی لڑائی جھگڑا یا گالی گفتار نہ کا رویہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ اس سے یہ کہہ کر دامن بچا لیا جائے ’’انی امرء صائم‘‘کہ میں تو روزہ دار ہوں ، میں آپ کی برائی کا جواب برائی سے نہیں دے سکتا، اس حکمت عملی سے دشمن کو زیر کیاجاسکتا ہے، اس کی وجہ وہ اپنے ناپاک ارادوں کو روبہ عمل نہیں لاسکتا، اس میں دشمن کیلئے ایک پیغام عمل بھی ہے جو اس کی انسانیت کو جگاتا ہے اور یہ احساس اسکے اندر پیدا کرتا ہے کہ جب میرا فریق لڑائی جھگڑے کیلئے آمادہ نہیں تو پھرمجھ کو بھی اس ارادہ سے باز آجانا چاہئے، گویا یہ عمل دشمن انسان کو بھی مروت اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے، یہ تدبیر صرف ماہ رمضان کیساتھ مخصوص نہیں بلکہ روزہ رہتے ہوئے روزہ دار کی ایسی تربیت ہوجانی چاہئے کہ ماہ رمضان کے بعد کسی مہینہ میں بھی کسی نادان سے ایسا سابقہ پڑجائے تو ایک بندہ مومن سے یہی کردار جھلکے، اب وہ روزہ دار تو نہیں ہے لیکن روزہ کی وجہ اس کی ایسی تربیت ہوچکی ہو کہ وہ روزہ دارانہ زندگی کا پابند ہوگیا ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ روزہ میں ایک مدت تک کیلئے جسمانی تقاضوں یعنی کھانے پینے اور جائز خواہشات سے روکنے سے مقصود بندہ مومن کو تخلقواباخلاق اللّٰہکا پیکر بنانا ہے۔ اللہ سبحانہ کی ذات تو ان سارے مادی حوائج سے منزہ ہے، ایک بندہ مومن کو مقررہ وقت کیلئے ان مادی حوائج سے جبری طور پر دور رکھ کر اس کے نفس کی تطہیر کرنا ہے، اس کی وجہ نفس انسانی کی کثافت دور ہوتی ہے، لطافت و پاکیزگی نصیب ہوتی ہے۔
قلب کی تطہیر و تزکیہ کے آثار اعضاء و جوارح پر مرتب ہوتے ہیں یعنی اسکے سارے اعضاء روزہ دارانہ کیفیات کے حامل بن جاتے ہیں، اب آنکھ خلاف مرضیات رب حرام و ناجائز چیزوںکا مشاہدہ نہیں کرسکیگی، ہاتھ کسی ناجائز چیز کی طرف بڑھ سکیں گے نہ کسی ناجائز شئے کو تھامنے کی ہمت کرسکیںگے، قدم کسی ناجائز راستہ کی طرف نہیں اٹھ سکیںگے، یہاں تک کہ دل و دماغ بھی ناجائز تصوارت وخیالات سے محفوظ رہیںگے، دراصل روزہ کی روح یہی ہے ، اس طرح کے روزہ داروں کو اللہ سبحانہ کی بے پناہ رحمتیںاپنی آغوش رحمت میں لے لیتی ہے، ایسے روزہ داروں کیلئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ دنیا کی آسودگی کا فیصلہ فرماتے ہیں اور اُخروی بے نہایت اجروثواب ان کا مقدر بنتا ہے، حدیث قدسی میں ارشاد ہے: ’’بنو آدم کے اچھے اعمال کا اجروثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا چڑھا کر دیاجاتا ہے (لیکن روزہ اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہے)، روزہ کے لئے اللہ سبحانہ فرماتے ہیں: چونکہ روزہ خاص میرے لئے ہے، میں ہی اس کا بدلہ اور ثواب دونگا ( روزہ کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ اس میں ریا کا کوئی شائبہ نہیں)۔ چونکہ روزہ دار نے صرف اور صرف میری رضا و خوشنودی کیلئے کھانے پینے اور جائز خواہش نفس کو چھوڑ دیا ہے‘‘۔(بخاری)
ویسے اللہ سبحانہ کے تمام نیک بندوں کیلئے جنت کا وعدہ ہے، اللہ سبحانہ اپنے فضل خاص سے جنت کی نعمتیں اور اُخروی راحتیں نصیب فرمائیںگے لیکن روزہ داروں کیلئے جنت میں داخلہ کیلئے خصوصی اہتمام ہوگا، ارشاد ہے: ’’جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو ’’باب الریان‘‘ کا نام دیاگیا ہے، اس دروازہ سے روزہ داروں کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہیں ہوسکے گا، روزحشر نداء دی جائے گی کہ روزہ دار بندے کہاں ہیں؟ آواز سن کر وہ اٹھ کھڑے ہونگے اور ان کے سوا کسی اور کا اس دروازہ سے داخلہ نہیں ہوسکے گا، اس دروازہ سے جب روزہ دار جنت میں داخل ہوجائیںگے تو اس دروازہ کو بند کردیا جائیگا، ان کے سوا کسی اور کا پھر اس سے داخلہ نہیں ہوگا‘‘۔ (بخاری)
روزہ کی حالت میں بھوک سے کہیں زیادہ پیاس کا احساس انسان کو ستاتا ہے، خاص طور موسم گرما ہو تو پھر اس تشنگی کے احساس میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، یہ وہ قربانی ہے جو اللہ کو بہت بھاتی ہے، اسلئے روزہ کا صلہ جنت میں ایسے دروازہ کے داخلہ سے دیاجارہاہے جس کی خاص صفت خوب سیراب وشاداب کرنا ہے، جنت میں پہنچ جانے کے بعد کیا کچھ نعائم ولذائذ کا انتظام ہوگا اور کیسی کچھ سیرابی وشادابی ہوگی وہ تو بس اللہ سبحانہ ہی کے علم میں ہے، اللہ سبحانہ نے اس صلہ کا اظہار تو ’’الصوم لی وانا اجزی بہ‘‘ سے کردیا ہے یعنی روزہ دار کا روزہ تو بس میرے ہی لئے ہے اور میں ہی خود اسکا صلہ دونگا۔ اس خوشخبری میں اُخروی راحتوں اور نعمتوں کی جو عظیم دنیا پوشیدہ ہے، اس کا اس مادی دنیا میں کوئی تصور ممکن نہیں۔