مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن روزہ ہے ، روزہ کے لغوی معنی رکنے کے ہیں ، شریعت کی اصطلاح میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ کی نیت کے ساتھ کھانے پینے اور خواہشات نفس سے اپنے آپ کو رو کے رکھنے کے ہیں، صحت روزہ کے لئے روزہ دار کا مسلمان ہو نا اور عورتوں کا اپنے مخصوص ایام سے پاک ہو نا شرط ہے ،یعنی خواتین کے ایام ماہواری اور حمل کے بعد جا ری رہنے والے خون سے پاک ہو نا ضروری ہے۔
رمضان المبارک کے روزے مکۃ المکرمہ سے ہجرت کر کے مدینۃ المنورہ پہنچنے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آنے کے تقریبا دس دن بعد فرض ہوئے۔ ’’کما کتب علی الذین من قبلکم‘‘ کے ارشاد سے پچھلی امتوں پر رو زہ کی فرضیت ثابت ہے ،لیکن وہ روزے ماہ رمضان کے تھے اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں، اس امت پر ما ہ رمضان کے رو زوں کی فر ضیت سے قبل عاشورہ کے رو زہ کی فر ضیت بعض محقق علماء کی رائے سے ثابت ہے، احادیث پاک کی رو سے اس روزہ کا اہتمام اہل کتاب کے ہاں بھی ثابت ہے ، او ر بعضوں کی رائے یہ ہے کہ ایام بیض کے رو زے فر ض تھے ، ایا م بیض سے مراد چاند کے مہینے کی تیرہ ،چودہ ، پندرہ ، کی تاریخ ہے ، رمضان المبارک کے رو زوں کی فر ضیت کے بعد ان رو زوں کی فر ضیت تو ساقط ہو چکی ، لیکن ان کا مسنو ن اور باعث فضیلت ہو نا بر قرار ہے۔
ابتداء ً غروب آفتاب کے بعد سو نے سے قبل تک تو کھا نے پینے وغیرہ کی اجازت تھی لیکن سو کر اٹھنے کے بعداس کی اجازت نہیںتھی ، چونکہ اس میں بڑی مشقت تھی اس لئے بعد میں یہ حکم منسوخ کر دیا گیا ، اورغروب آفتاب سے صبح صادق تک بلا کسی قید کے جائز وحلال اشیاء کے استعمال اور جائز خواہشات کی تکمیل کی اجازت دیدی گئی ، روزہ کی غرض و غایت تو تقوی ہے، اسلئے روزہ کی وجہ رو زہ دار کو بشرط اخلاص و بقدر اخلاص ثمرہ حاصل ہو تا ہے ، نماز و روزہ دونوں خالص بدنی عبادات ہیں لیکن نماز میں اعضاء و جوارح کو حرکت ہو تی ہے،قیام ، رکوع، سجود اور قعود ادا ہوتے ہے،گوکہ روح کا استحضار اس میں بھی شرط ہے،اور اس کا مقصود عبادت و رضائِ رب ہے،لیکن روزہ بدنی عبادت ہو نے کے باوجود ظاہری اعـضاء کا اس میں کوئی رول نہیں ، بلکہ باطن کا اس سے تعلق ہے، اللہ کی رضا کیلئے ایک مقررہ مدت تک بھوک و پیاس کا برداشت کرنا اور جائز نفسانی خواہشات سے رک جا ناباطنی عمل ہے، اور ہر دو میں رضاء ِالہی مطلوب ہے
، خواہ اعضاء وجوارح کی ظاہری کیفیات کے ساتھ ادا ہونے والی عبادت نماز ہو یا جسمانی باطنی عبادت روزہ ہودونوں کے دونوں مقام احسان پر رہتے ہو ئے ادا ہو ں تو’’ نو رٌ علی نور ‘‘ اس در جہ کی نماز اور اس درجہ کا رو زہ بندہ کو اللہ کا قرب نصیب کر تے ہیں ، فواحش و منکرات سے حفاظت ہو تی ہے، نفس امارہ کی طاقت ٹوٹ جا تی ہے ، اور نفس لوامہ کی نعمت میسر آجاتی ہے ، گناہ و معصیت کے سو تے بہت حد تک خشک ہو جاتے ہیں،مقام احسان یعنی یہ استحضار کہ’’ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے‘‘،کی وجہ سے انسان ہر طرح کی برائی سے بچ جاتا ہے ،روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو روحانی ترقی میں بڑا مؤثر ہے ، چنانچہ مروی ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسو ل اللہ مجھے ایک ایسے عمل کا حکم فرمایئے کہ جس کی وجہ اللہ سبحانہ مجھے نفع بخشے آپ ﷺ نے فر ما یا ’’علیک بالصوم فانہ لا مثل لہ ‘‘تم روزہ رکھا کرو اس جیسا اور کوئی عمل نہیں ہے ، یعنی روزہ کی ایک منفرد حیثیت ہے ، اس طرح اور عبادات بھی اپنی انفرادیت رکھتے ہیں اس جہت سے روزہ کا منفرد ہو نا بھی اپنے معنی رکھتا ہے ، روزہ کی انفرادیت اور اسکی خصوصی صفت یہ ہے کہ وہ خواہشات نفس کو تو ڑتا ہے
، اور نفس کے جال میںپھنسنے سے انسا ن محفوظ رہ سکتا ہے ، سرکش نفس پر قابو پا نا اور اس کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھنا کوئی آسان کا م نہیں ، اور روزہ کی وجہ یہ کنٹرول حا صل ہو سکتا ہے ، روزہ رکھتے ہو ئے اگر ضبط نفس حاصل نہ ہو تو روزہ رکھنے کا کوئی حاصل نہیں ، اسی لئے روزہ رکھتے ہو ئے ان ساری خرابیوں سے پر ہیز کی سخت ضرورت ہے جو روزہ کو بے ثمر کر دیتے ہیں ، چناچہ حدیث پاک میں ارشاد فر مایا گیا رو زہ رکھتے ہو ئے جو کوئی جھوٹ او رلغو بات چیت او ر لغو و باطل اعمال سے پر ہیز نہ کرئے تو اللہ کو اس کے بھوکے و پیا سے رہنے کی چنداں حاجت نہیں ، اللہ کی رضاء کیلئے بھو کے پیا سے رہنے کے ساتھ فواحش و منکرات اور معاصی سے اپنے اعضاء و جوارح کو محفوظ رکھنے کی جد و جہد سے روزہ کے بر کا ت و ثمرات حاصل ہو تے ہیں ، یہی روزہ کی رو ح ہے ، اور حقیقی معنی میں روزہ کی روح جس کو حاصل ہو جائے اس کی نگاہیں اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کی طرف اٹھنے نہیں پاتیں ، گناہوں کی طرف قدم بڑھنے سے رک جا تے ہیں ، کسی نا جائز امر کو چھو نے سے ہا تھ باز آ جاتے ہیں ،
زبان سے کوئی فضول گفتگو نہیں ہو نے پا تی یہاں تک کہ تصورات و خیا لات بھی پا کیزہ تر ہو جاتے ہیں ، اسی طرح گو یا معدہ و نفس کے ساتھ اس کے سارے اعضاء و جوارح بھی روزہ دار ہو جاتے ہیں، روزہ کے عمل سے تسکین خا طر کا سامان ہو تا ہے ، طمانیت و سکو ن کی وجہ راحت نصیب ہو تی ہے، بشاشت قلبی ایسی حاصل ہو جاتی ہے کہ وہاں افسر دگی ، رنج و غم ،بے چینی و اضطراب کا کوئی گزر نہیں ہوتا ،نیکیوں سے رغبت بڑھ جاتی ہے،گناہوں سے ایک طرح کی نفرت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے ، روزہ کی وجہ اللہ کی رضا ء کیلئے بھو کا پیاسا رہنے سے نعمتوں سے محروم بھوکوں اور پیا سوں کی بھوک و پیاس کا احساس تازہ ہو تا ہے ، ان کے درد کو سمجھنے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کر نے کا رجحان پیدا ہو تا ہے ،ان مادی فوائد کے ساتھ رو زہ کی وجہ روحانی فوائد اس درجہ حاصل ہو تے ہیں کہ اس سے باطنی لطافت و پاکیزگی میں اضا فہ ہوتا ہے،جنت میں داخلہ کیلئے ظاہر سے زیادہ باطنی رو حانی لطافت کی اہمیت ہے ، رو زہ رکھتے ہو ئے ایک بندہ جب اللہ کی منع کی ہو ئی چیزوں سے رکتا ہے تو اس سے جو روحانی لطافت وتازگی حاصل ہوتی ہے وہ وقتی اور موسمی ہوسکتی ہے لیکن روزہ کی روح کو اپنے اندر سموکر ماہ رمضان کے بعد بھی تا دم زیست اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے رکے رہنے کا التزام کرلیا جائے تو اس سے اس رو حا نی لطافت وطہارت کی حفاظت ہوسکتی ہے،اور جنت جیسی نعمت اسے نصیب ہوسکتی ہے،
پھر جنت میں بھی ایک خصوصی دروازہ سے رو زہ دار کا داخلہ ہو تا ہے ، جس کو’’ ریان‘‘ کہتے ہیں حدیث پاک میں وارد ہے کہ ’’ جنت میں ایک خاص دروازہ ہے جس کا نام ’’ریان ‘‘ہے اس دروازہ سے روز حشر صرف روزہ دار ہی داخل ہو نگے، اس دن نداء دی جائیگی ائے روزہ دارو تم کہاں ہو ادھر آجاو ،چونکہ تمہارا روزہ رکھتے ہو ئے بھوکا پیاسا رہنا اللہ کی رـضا ء کیلئے تھا، اسلئے تم اس خصوصی دروازہ سے جنت میں داخل ہو جاو ،اس کے بعد وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا روزہ داروں کے سوا دوسروں کو اس سے داخل ہو نے کی اجازت نہیں ہو گی ، رو زہ کی حا لت میں سب سے زیادہ جس کا احساس انسا ن کو ہو تا ہے وہ تشنگی ہے ، اسی مناسبت سے رو زہ داروںکے لئے جو دروازہ متعین کیا گیا ہے اس کا نا م ’’ ریان ‘‘ ہے ریان کے معنی خوب سیراب کر نے کے ہے، روزہ داروں کو اس دروازہ سے کیسی روحانی سیرابی حاصل ہوگی اس کا تو کوئی تصور اس عالم میں نہیں کیا جا سکتا ، سیراب کر نا خود اس در وا زہ کی خاص صفت ہے ، اس دروازہ کی یہ خصوصیت ہے تو اس کے اندرو ن میں کیسی رو حانی سیرابی و شادابی ہو گی اس کا کہاں تصور کیا جا سکتا ہے ، وہاں کے انعامات تو بس اللہ ہی کے علم میں ہیں، ’’الصوم لی و انا اجزی بہ ‘‘یعنی روزہ تو بس میرے ہی لئے ہے میں ہی اس کا صلہ دوں گا ، کے جلوے اہل جنت ۔جنت میں دیکھیں گے، لیکن اس مادی دنیا میںبھی مخلص روزہ دار بندوں کو بہت کچھ نوازا جاتا ہے،یہ سب اس ذات حق کی شان کریمانہ ہے جو قادر و قیوم ہے ،بیکراں فضل و کرم کر نے والا اور جو بے نہایت رحمتوں کے خزانوں کا مالک ہے ۔ بس اس پر ایمان ویقین شرط ہے ،یہی ایمان وایقان ہی دراصل ایمان کی روح اور جان ہے ۔