مرسلہ: محترمہ نسیم بیگم
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے‘‘۔ روزہ ایک بدنی عبادت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روزہ کا تصور کم و بیش ہر مذہب اور ہر قوم میں موجود رہا ہے اور اب بھی ہے، مگر اسلام میں روزے کا تصور یکسر جداگانہ، منفرد اور مختلف ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف انسائیکلو پیڈیا آف جیوز میں اس طرح کیا گیا ہے:
’’یہ اسلام ہی ہے جس نے روزے کے بارے میں اپنا زاویۂ نگاہ اور دائرۂ کار وسیع کردیا ہے اور روزہ کے اغراض و مقاصد کو بلند کردیا ہے۔ زندگی کی وہ تمنائیں اور نفسانی خواہشات جو عام طورپر جائز ہیں، اسلامی روزہ میں ان پر بھی معین عرصہ کے لئے پابندی عائد کردی جاتی ہے اور اسلام کا ماننے والا ان پابندیوں کو اپنی دِلی رغبت و مسرت کے ساتھ اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے۔ یہ چیزیں جسم و روح دونوں کے لئے ایک مفید ورزش ہیں‘‘۔
روزے کی اصل مقصدیت کو حاصل کئے بغیر ہم رمضان کی برکتوں سے کماحقہٗ استفادہ نہیں کرسکتے۔ ذیل میں روزے کی مقصدیت و افادیت اور اس کی فرضیت میں چھپی حکمتوں پر مختصر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
روزے کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی ہو جاؤ‘‘۔
اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ کے آخر میں روزے کی فرضیت کا مقصد ’’لعلکم تتقون‘‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا کہ روزے کا مقصد و مدعا یہ ہے کہ اہل ایمان اس کے ذریعہ تقویٰ و پرہیزگاری کی دولت حاصل کریں۔ شاید انھیں خوف و خشیت الہٰی نصیب ہو جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے حصول کو روزوں کے ساتھ خاص کیوں کیا ؟ حالانکہ دیگر تمام عبادات و اذکار، نوافل، تسبیحات، حسن اخلاق اور حسن معاملات سے بھی پرہیزگاری اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ روزے کو تقویٰ کے حصول کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذریعہ اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ تقویٰ کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ انسان دنیا کی خواہشات کے بندھن سے آزاد نہ ہو جائے اور ماہِ رمضان خواہشاتِ نفس کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالتا ہے۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ’’روزہ (دنیا میں گناہوں سے اور آخرت میں عذاب سے بچنے کے لئے) ایک ڈھال ہے‘‘۔
رمضان کا لغوی معنی ہے جلانا، گویا مؤمن ماہ رمضان میں روزے کی آگ جلاتا ہے تو وہ آگ نفس کی شیطانی خواہشات ، نفسانی شہوات، دنیاوی حرص و لالچ اور مادی چاہتوں کو جلاکر راکھ کردیتی ہے اور اس جلنے کے بعد پیدا ہونے والی توانائی سے روح کو جِلا ملتی ہے اور نفس کمزور و لاچار ہوتا ہے۔ ہمارا دل، روح اور نفس کے درمیان معلق ہے، اگر روح طاقتور ہو تو دل کو متاثر کرتی ہے اور اسے بھی ملاء اعلیٰ کی لذتوں سے آشنا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں دل تجلیات الہٰی کے انوار سے منور ہوتا ہے، گویا تجلیاتِ الہٰیہ کے حصول کے لئے قلب اس وقت تیار ہوگا، جب روح پاکیزہ، مقدس اور طاقتور ہوگی، جب کہ روح کی طاقت تقویٰ کے بغیر ناممکن ہے اور تقویٰ کا حصول صرف اور صرف مجاہدات و ریاضات سے ہی ممکن ہے اور مجاہدہ و ریاضات کا بہترین طریقہ روزہ ہے۔
روزے کی حالت میں انسان حرام چیزوں سے تو درکنار، ان حلال و طیب چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتا، جن سے متمتع ہونا عام زندگی میں بالکل جائز ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ روزے کی حالت میں انسان بھوک، پیاس سے تڑپ رہا ہو اورمشروبات اور مرغن غذائیں موجود ہوں، اس کے باوجود کھانے اور پانی کو ہاتھ لگانا تو دُور کی بات ہے، دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جب ایک مسلمان محض رضائے الہٰی کے حصول کے لئے ان جائز و حلال اشیاء کو کچھ وقت کے لئے ترک کردیتا ہے تو وہ ان افعال و اشیاء کو جن کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام قرار دیا ہے اور ان سے بچنے اور دُور رہنے کی ہدایت فرمائی ہے تو پھر انسان ان حرام و ناجائز افعال سے باز کیوں نہیں آئے گا۔ ہر سال ایک ماہ کے اس ضبط نفس کی لازمی تربیتی مشق کا اہتمام اس مقصد کے حصول کے لئے ہے کہ انسان کے قلب و باطن میں تقویٰ کا جوہر پیدا کرکے، اس کے سیرت و کردار میں ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکے اور سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام و حلال کا فرق اور امتیاز رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پا جائے کہ وہ اپنی باقی ساری زندگی کے ہر معاملے میں حکم خداوندی کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے حرام چیزوں کے شائبہ سے بھی بچ جائے۔
انسان، جسم و روح دونوں کا مجموعہ ہے۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے، جسے اپنی بقاء کے لئے غذا اور دیگر مادی لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ روح ایک لطیف چیز ہے، جس کی نشو و نما اور بالیدگی مادی ضروریات اوردنیاوی لذات کو ترک کردینے میں مضمر ہے۔ دونوں کے تقاضے ایک دوسرے کے متضاداور باہم متصادم ہیں۔ نفس میں برائی کا غلبہ ہوتا ہے اور نفس اپنی بہیمی، شہوانی اور حیوانی قوتوں کی وجہ سے انسان کو خدائی احکامات سے باغی و سرکش بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے انسان ضلالت و گمراہی کی وادیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اور شیطان اس پر حاوی ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس روح نہایت پاکیزہ اور شفاف و لطیف چیز ہے، اس میں معرفت حق، تقویٰ اور طہارت جیسی خصلتیں ہیں۔ روزہ انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگیوں اور کثافتوں سے پاک و صاف کردیتا ہے اور جسم کو اپنا پابند بناکر مادی قوتوں کو لگام دیتا ہے، جس سے روح لطیف تر اور قوی تر ہوتی ہے۔ جوں جوں روزے کی بدولت بندہ خواہشات نفسانی کے چنگل سے آزادی حاصل کرتا ہے، اس کی روح غالب و توانا اور جسم مغلوب و کمزور ہو جاتا ہے۔ مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیۂ نفس کا عمل تیزتر ہونے لگتا ہے، پس تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ ایک ماہ نفس کو قابو میں رکھنے کی اس مشق سے عادت بھی بدل جائے گی اور بُری باتوں کی طرف دھیان بھی نہیں جائے گا۔ اگر بندہ ایک طرف زہر کے اثر کو مٹانے کے لئے دوا بھی کرے اور دوسری طرف زہر کا استعمال بھی کرے تو ایسی صورت میں دوا کا اثر کس طرح ممکن ہے؟ اس لئے روزہ کا مقصد تبھی حاصل ہوگا، جب انسان اپنے نفس کو پاک و صاف اور منزہ کرے۔
صبر ایک عظیم اخلاقی و روحانی صفت کا نام ہے، جس کا تقاضا ہے کہ انسان کسی نعمت سے محرومی پر اپنی زبان کو شکوہ اور آہ و بکا سے روکے اور نہایت ہمت و برداشت کے ساتھ مصائب و آلام کا سامنا کرے۔ روزہ انسان کو تقویٰ کے مقام سے بھی بلند تر مقام شکر پر فائز دیکھنے کا متمنی ہے، وہ اس کے اندر یہ جوہر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت، ابتلاء اور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں، بلکہ وہ ہر تنگی و ترشی کا ہر حال میں خندہ پیشانی سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہے۔ روزہ چوں کہ کھانے پینے اور نفسانی شہوات سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے۔ روزہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے اوپر روک لیتا ہے۔ جب آدمی ایک خاص مدت تک نعمتوں سے دور رہے تو پھر اس کی قدر کا پتہ چلتا ہے۔ جب تک کوئی نعمت پاس ہو اس کی کماحقہٗ قدر نہیں ہوتی اور جب وہ مفقود ہو جائے تو پھر اس نعمت کی صحیح اہمیت اور قدر کا احساس ہوتا ہے۔ نعمت کی پہچان، اس کی قدر شناسی اور اس کے حق کی ادائیگی کو واجب کردیتا ہے اور حق کی ادائیگی شکر سے ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیاتِ صوم میں ’’لعلکم تشکرون‘‘ کے ذریعہ تشکر کی ضرورت و اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے، یعنی ہر حال میں بندہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہے یہی بندگی ہے۔
انسان زندہ رہنے کے لئے دوسروں کے تعاون کا محتاج ہے۔ اگر انسانی معاشرہ اخوت، بھائی چارہ، ہمدردی و رحمدلی اور ایثار و قربانی کے جذبہ سے عاری ہو جائے تو یہاں جنگل کا قانون رائج ہو جائے۔ روزے کی حالت میں بندہ بھوک و پیاس کے کرب سے گزرتا ہے اور اس کے دل میں ایثار، بے نفسی اور قربانی کا جذبہ تقویت پاتا ہے اور وہ عملاً اس کیفیت سے گزرکر جس کا سامنا انسانی معاشرہ کے مفلوک الحال اور روٹی کپڑے سے محروم لوگ کرتے ہیں، کرب و تکلیف کے احساس سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے دل میں دُکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پاتا ہے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس کی اساس باہمی محبت و مروت، انسان دوستی اور درد مندی و غمخواری کی لافانی قدروں پر ہو۔ اس احساس کا بیدار ہوجانا روزے کی روح کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا فقدان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ روزے میں روح نام کی کوئی چیز نہیں، یعنی روزہ انسان کو جذبۂ ایثار و قربانی اور صبر و قناعت سکھاتا ہے۔