روزہ کشائی

رمضان المبارک کا مہینہ کیا آیا تھا، جنید جس کی عمر آٹھ سال تھی، گویا اس کے لیے عید سے پہلے عید آگئی تھی۔ گھر کے سب بڑے روزہ رکھتے تھے مگر اسے اس کی امی روزہ نہیں رکھنے دیتی تھیں۔ کہتیں تھیں تم ابھی چھوٹے ہو اور اسکول بھی جاتے ہو۔ مگر جب ان کے پڑوس میں اونچی بلڈنگ والے عزیز صاحب کے بیٹے عمیر نے، جو عمر میں جنید سے ایک سال بڑا تھا، روزہ رکھا اور اس کی روزہ کشائی ہوئی تو عزیز صاحب نے محلہ کے علاوہ اپنے عزیزوں کو بھی بلوایا تھا۔ جنید بھی اپنے والد کے ساتھ دعوت میں گیا تھا۔ وہ اس شاندار دعوت سے بڑا متاثر ہوا۔ اس نے گھر آتے ہی اپنے گھر والوں سے روزہ رکھنے کی ضد کرڈالی۔ والدین کے منع کرنے پر اس نے عزیز صاحب کے بیٹے عمیر کا حوالہ دیا۔ ماں نے مایوسی سے کہا: ’’بیٹا تم عزیز صاحب کے بیٹے جیسا روزہ رکھنے کی کوشش تو کررہے ہو، مگر ہماری گنجائش نہیں ہے۔ روزہ کشائی کس طرح کریں گے؟‘‘ جنید نے فوراً کہا:’’ عزیز صاحب کو یہ سب چیزیں کس نے دی تھیں؟‘‘ ماں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے‘‘۔ جنید نے کہا: ’’بس اللہ ہمیں بھی دے گا‘‘۔ شاید یہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ باپ نے آگے بڑھ کر اپنے بچے کا منہ چوم لیا

اور کہا: ’’میرا بچہ بہادر بچہ ہے، پکے ایمان والا‘‘۔ جنید کو روزہ رکھنے کی اجازت کیا ملی اس نے مارے خوشی کے گھر سے باہر نکل کر اپنے تمام دوستوں میں زبردست پروپیگنڈہ کردیا۔عزیز صاحب کے بیٹے عمیر نے گھر آکر عزیز صاحب کے سامنے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا: ’’ابو! جنید کل روزہ رکھے گا۔ وہ شاید میرا مقابلہ کررہا ہے۔ مگر یہ لوگ غریب ہیں، ان کا مکان بھی ٹوٹا پھوٹا ہے، یہ جنید کی روزہ کشائی کس طرح کریں گے؟‘‘ عزیز صاحب کا بیٹا عمیر اچھا لڑکا تھا مگر وہ جنید اور اس کے والدین کے بارے میں عمیر کے حقارت آمیز انداز کو برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے عمیر کو بری طرح ڈانٹ دیا: ’’خبردار جو تم نے کبھی غریبوں کے لیے کوئی غلط بات کہی۔ وہ اللہ کے بندے ہیں،

تمہیں کیا حق ہے کہ تم ان کی تحقیر کرو!‘‘ ان پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوچکی تھی۔ ان کی بیوی بھی اس بدلی حالت پر چونک پڑیں۔ وہ اٹھے اور گھر سے باہر نکل گئے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی چل کر دروازے تک آئیں، انہوں نے دروازے سے دیکھا کہ عزیز صاحب نے جنید کے گھر کے دروازے پر پہنچ کر اس کے والد کو آواز دی۔ جنید کے والد باہر نکلے، سلام دعا کے بعد عزیز صاحب نے جب یہ پوچھا کہ کل جنید روزہ رکھ رہا ہے؟ تو وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگے۔ عزیز صاحب نے کہا: ’’آپ حیرت میں نہ پڑیں، جنید نے یہ بات عمیر کو بتائی تھی۔ میں آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ کل جنید کی بھی روزہ کشائی ہوگی‘‘۔ جنید کے والد نے حیرت سے کہا: ’’وہ کیسے؟ میری تو اتنی…‘‘ عزیز صاحب نے جلدی سے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ’’آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، یہ روزہ کشائی کی تقریب میری طرف سے ہوگی‘‘۔ جنید کے والد نے کہا: ’’عزیز صاحب میرا ضمیر یہ کب گوارا کرے گا کہ آپ پر اپنے بچے کے لیے بار ڈالوں‘‘۔ عزیز صاحب نے اپنی دلسوز آواز سے جنید کے والد سے کہا: ’’کیا آپ مجھے اپنا بھائی نہیں سمجھتے؟‘‘ جنید کے والد سے رہا نہ گیا، وہ آگے بڑھ کر عزیز صاحب سے لپٹ گئے ’’عزیز صاحب آپ جیسے فرشتہ صفت انسان ڈھونڈے سے نہیں ملتے جو ہم جیسے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوں۔

‘‘ عزیز صاحب نے جنید کی روزہ کشائی کے لیے شاندار انتظامات کیے، بلکہ اپنے وسیع حلقہ احباب کو جن میں ان کے دوست اور عزیز شامل تھے، جنید اور اس کے خاندان کی کیفیت بتا کر آنے کی دعوت دے ڈالی۔ لوگ اس دعوت پر عزیز صاحب کی فراخ دلی پر عش عش کر اٹھے۔ ان کے دوستوں اور عزیزوں نے جنید اور اس کے خاندان کو نقد رقم اور تحفوں سے لاد دیا۔ عزیز صاحب کے ایک دوست نے ان سے ہنستے ہوئے کہا: ’’یار عزیز میرے نئے مکان کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے، کچھ سامان بچا ہے، اگر کہو تو تمہارے پڑوس کے مکان کا حلیہ بدلوا دوں؟‘‘ عزیز صاحب یہ سن کر باغ باغ ہوگئے ’’نیکی اور پوچھ پوچھ! دیر کس بات کی‘‘ انہوں نے کہا۔ عزیز صاحب نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں جنید کے گھر والوں کو منتقل کردیا۔ کچھ ہی دن بعد جنید کے اس ٹوٹے پھوٹے گھر کی جگہ ایک خوب صورت گھر نیک عمل کی بہار دکھا رہا تھا۔ جنید کے گھر والے اٹھتے، بیٹھتے عزیز صاحب اور ان کے گھرانہ کو دعائیں دیتے تھے۔ عزیز صاحب ان دعائوں پر بڑے خوش ہوتے اور ہاتھ اٹھا کر کہتے: ’’اللہ تْو گواہ رہنا، میں نے تیری دی ہوئی دولت کو تیرے مستحق بندوں پر خرچ کیا ہے، اللہ تعالیٰ مجھے اور اچھائیوں کی توفیق دے‘‘۔ عزیز صاحب ایک دن اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بتایا: ’’میں بھی کسی زمانے میں انتہائی مفلس تھا۔ میرے والدین غریب لوگ تھے، لیکن اللہ نے بڑا کرم کیا، آج میں اس شہر کا بڑا تاجر ہوں۔ میں اچھے کام کرکے اللہ کا شکر گزار بندہ بننا چاہتا ہوں۔‘‘