روزہ جسمانی صحت اور جدید طبی تحقیقات

خالقِ کائنات نے تین اقسام کی مخلوق پیدا کی ہیں۔نوری یعنی فرشتے ، ناری یعنی جن اور خاکی یعنی انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔دراصل انسان روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے اور اس کی تخلیق اس طرح ممکن ہوئی کہ جسم کو مٹی سے بنایا گیا اور اس میں روح ڈالی گئی۔جسم کی ضروریات کا سامان یا اہتمام زمین سے کیا گیا کہ تمام تر اناج غلہ پھل اور پھول زمین سے اگائے جبکہ روح کی غذا کا اہتمام آسمانوں سے ہوتا رہا۔ہم سال کے گیارہ ماہ اپنی جسمانی ضرورتوں کو اس کائنات میں پیدا ہونے والی اشیاء سے پورا کرتے رہتے ہیں اور اپنے جسم کو تندرست و توانا رکھتے ہیں۔مگر روح کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ہمیں پورے سال میں ایک مہینہ ہی میسر آتا ہے جو رمضان المبارک ہے۔
دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میںبغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کاطمع کئے تعمیلاًروزہ رکھتے ہیںتاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیںجسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل ، ڈاکٹر جوزف ، ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر ، ڈاکٹر ایم کلائیو ،ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ، ڈاکٹر جیکب ، ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ ، ڈاکٹر برام جے ، ڈاکٹر ایمرسن، ڈاکٹرخان یمر ٹ، ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل مشاہدوں سے تسلیم کیا ہے۔کچھ عرصہ قبل تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ روزہ کے طبی فوائد نظام ہضم تک ہی محدود ہیںلیکن جیسے جیسے سائنس اور علم طب نے ترقی کی دیگر بدن انسانی پر اس کے فوائد آشکار ہوتے چلے گئے اور محقق اس بات پر متفق ہوئے کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔
آیئے! اب جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں کہ روزہ انسانی جسم پر کس طرح اپنے مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔
روزہ اور نظام ہضم :
نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضا پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضا جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا، مقوی نالی ( limentary Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی۔ معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضا اس نظام کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔     (سلسلہ ہیلتھ سپلیمنٹ صفحہ 2 پر )
ظاہرہے کہ ہمارے موجودہ لائف اسٹائل سے یہ سارا نظام 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ ، جنک فوڈزاور طرح طرح کے مضر صحت الم غلم کھانوں کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کو نظام ہضم میں حصہ لینے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فورا مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیرہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو اسٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنی ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے اسٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن( Globulin)جو جسم کے محفوظ رکھنے والے مدافعتی نظام کو تقویت دیتا ہے، کی پیداوار پر صرف کرتاہے۔
رمضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پاؤنڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یا د رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
روزے سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے۔نظامِ ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔ عام حالت میں بھوک کے دوران یہ رطوبتیں زیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔جبکہ روزے کی حالت میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ میں خلیوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے۔ یوں نظامِ ہضم درست کام کرتاہے۔روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے اس کے اثر سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہو جاتی ہیں جس سے تیزابیت (Acidity)جمع نہیں ہوتی اس کی پیداوار رک جاتی ہے۔معدہ کے ریاحی دردوں میں کافی افاقہ ہوتا ہے ، قبض کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے۔روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔
جاری ہے …