روزہ تزکیۂ نفس کا ایک اہم ذریعہ

سید زبیر ہاشمی، معلم جامعہ نظامیہ

ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، اسکا استقبال اور تیاری کرنا ہر ایک لئے اشد ضرورت ہے تاکہ اس سے استفادہ کا بھر پور موقع مل جائے۔اور آنے والا مہینہ اسلامی اعتبار سے نواں مہینہ ہے، اور اتنا مبارک مہینہ ہے کہ جس میں رحمت الٰہی کی ایسی ہوائیں چلتی رہتی ہیں، جس سے انسانوں کے زنگ بھرے دل صاف ہوجاتے ہیں، کمزور اعضاء جسمانی میں جان آجاتی ہے، نماز تراویح کا اہتمام بڑے خشوع و خضوع سے ہوتا ہے، روزہ بڑی خوشی کے ساتھ رکھا جاتا ہے، اِس روزہ کے ذریعہ انسان میں تقوی اور تزکیۂ نفس کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔
مذہب کا اصل مقصد درحقیقت تصفیۂ عقائد، تزکیۂ نفس و روح اور اخلاق حسنہ کی ترویج ہے۔ اسی لئے حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا: ’’بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ‘‘ {ألحدیث} کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اس لحاظ سے انسانیت کا نصب العین، اخلاق حسنہ کی تکمیل ہے جو تزکیہ نفس کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

مذاہب عالم کے متعلق جن جن اسلامی صحیح فکر رکھنے والوں نے جو بتلایا ہے اس کے مطالعہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا کا ہر مذہب کسی نہ کسی صورت میں تزکیۂ نفس اور روحانی طہارت کی اہمیت کو اجاگر کرتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے نزدیک اس کے انداز مختلف اور طریقے علیحدہ علیحدہ ہ ہیں مثلا ہندوؤں کے پاس پوجا کا تصور ہے، عیسائیوں کے نزدیک رہبانیت کا رجحان، یونان کے مفکرین نے اس سلسلے میں ترکِ دنیا کو ضروری قرار دیا ہے، لیکن اسلام ایک ایسا بہترین، سادہ اور آسان مذہب ہے، جو ان تمام خرافات، افراط و تفریط سے مبرہ و پاک ہے، آقائے دوجہاں حضور علیہ التحیۃ و الثناء نے ہم سب کو تقوی اور تزکیۂ نفس کے لئے ارکانِ اسلام کی صورت میں ایک ایسا بہترین لائحۂ عمل عطا فرمادیا، جو سب مسلمانوں کے لئے نہایت ہی آسان اور قابل عمل بھی ہے۔

ارکان اسلام یہ ہیں {ایک} توحید {دو} نماز {تین} روزہ {چار} زکوۃ {پانچ} حج۔ ان میں سب اہم ہی ہیں۔ مگر آج روزہ کے متعلق لکھا جارہا ہے، جو تزکیۂ نفس کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ روزہ کا تصور کم و بیش ہر مذہب اور ہر قوم میں موجود رہا ہے اور اب بھی ہے، تنگ نظریہ سمجھنا، محدود کرلینا، مخصوص مفادات پیش نظر رکھنا، مگر اسلام میں روزے کا تصور جداگانہ، مختلف اور منفرد ہے۔

اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے روزے کے بارے میں اپنا دائرہ وسیع کیا اور روزے کا مقصد بلند و بالا کیا ہے۔ خواہشات نفسانیہ اور تمنائیں جوکہ دائرۂ شریعت میں درست ہے مگر روزہ میں ان پر بھی دورانِ روزہ پاپندی لگادیا ہے۔ اور آدمی اس کو بڑی خوشی کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں جسم و روح ہر دو کیلئے ایک بہترین ورزش ہے۔
اس کے علاوہ الگ الگ مذاہب میں روزہ رکھنے کے مکلف بھی مختلف طبقات میں موجود ہے، مثلا ہندوؤں میں برہمن، پارسیوں کے پاس مذہبی پیشوا اور یونانیوں کے پاس صرف عورتیں روزے رکھنے کی پاپند ہیں، ساتھ ہی ساتھ ان کے اوقاتِ روزہ بھی مختلف ہیں۔ لیکن اسلام وہ واحد مذہب ہے جو دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے عاقل، بالغ عاقل مسلمان مرد و عورت پر ایک ہی وقت میں ماہِ رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے: ’’پس تم میں سے جوکوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے‘‘ {سورۃ البقرۃ، آیۃ ۱۸۵}

ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، لوگ بڑی خوشی کے ساتھ نماز تراویح بھی ادا کرتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، عبادت، ریاضت بھی کرتے ہیں، کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کا ہر لمحہ رحمتوں، برکتوں، سعادتوں، مغفرتوں اور کرم کے خزانے لے کر جلوہ گر ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ روزہ بھوک اور پیاس کے ذریعے ہم سب کو اپنے اطراف و اکناف کے مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

ماہِ رمضان المبارک ہم سب مسلمانوں کے لئے یہی پیغام لاتا ہے کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ رحمت و شفقت کے پیکر بن جائیں، دوسروں کی ضرورتوں کو محسوس کرنے والے بن جائیں، تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قرآنی تعلیمات کو عام کریں، گھروں میں قرآن خوانی اور تفہیم قرآن کا شوق دلائیں، عقیدہ کی اصلاح کرائیں، قول و عمل قرآن اور حدیث کے مطابق ہوجائے، اس قول و عمل سے تمام غیر اسلامی اور ناپسندیدہ نشانیوں کی مذمت کریں، ریاکاری، غیبت، بدکاری، مکر و فریب، بغض، حسد، جھوٹ اور عیب جوئی جیسے روحانی امراض سے خود کو بچائیں اور اس سے ہونے والے مہلک اثرات سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں۔ یہی تقوی کا تقاضہ، اسلامی تعلیمات اور روزے کا مقصد و پیغام ہے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے وہ خوش نصیب بندے جن کی زندگیوں میں ماہِ رمضان المبارک کا آنا ایک نئی زندگی سے کم نہیں ہوتا، اس ماہِ مبارک کا صدق دل سے استقبال کرتے ہیں اورتمام بندے اپنے آپ کو اس مبارک مہینہ میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کردیتے ہیں ۔ چھوٹی سی چھوٹی نیکی حاصل کرنے میں بھی دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اس بابرکت مہینے کے ہر اچھے عمل کا ثواب کئی گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے ۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے ہر عمل کی نیکی دس گنا سے سات سو گنا بڑھائی جاتی ہے ۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ کا معاملہ جدا ہے ، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا ۔ یعنی جو بندہ روزہ کے تقاضوں کو پورے خشوع و خضوع کے ساتھ انجام دے گا ، نیکیاں بھی اسی حساب سے نوازی جائیں گی‘‘ ۔

روزہ کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے پیٹ اور حصۂ زیر ناف {شرمگاہ} کے تقاضوں سے رکے رہیں ۔ زبان ، آنکھ ، کان ، ہاتھ پاؤں کی حفاظت کرے اور دل و دماغ کو صرف اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے ذکر اور حمد و ثناء میں مشغول رکھے ۔ سحری کا اہتمام کریں ، نمازوں کی پابندی کریں ، تلاوت کلام پاک کو لازمی بنالیں ، افطار میں (افطار کا وقت ہونے پر) جلدی کریں ، نمازِ تراویح کا پاپندی کے ساتھ اہتمام کریں ، اعتکاف کا اہتمام کریں ، صدقۂ فطر اور زکوۃ ادا کرنے میں کوتاہی نہ کریں ۔ جب ان تمام باتوں پر کوئی بندہ خلوص دل سے عمل کرتا ہے تو بے شک اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے یہ قوی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اس کا بے حساب اجر و ثواب عطا فرمائے گا ۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو آنے والے ماہ رمضان المبارک کی اہمیت و افادیت کو پیش نظر رکھ کر تجھے راضی کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
zubairhashmi7@gmail.com