قوت سماعت و بصارت اور گویائی سے محروم نوجوان لڑکے لڑکیوں کیلئے کروڑہا روپئے مختص صنعتی گھرانوں اور بنکوں کا تعاون، روزنامہ سیاست رہنمائی کیلئے تیار
حیدرآباد ۔ 4 اکٹوبر ۔ ہندوستان بالخصوص حیدرآباد میں قوت سماعت، قوت بصارت و قوت گویائی سے محروم اور جسمانی طور پر معذور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ ان میںکچھ پڑھے لکھے ہیں تو بعض نے درمیان میں ہی تعلیم ترک کردی ہے۔ ان لڑکے لڑکیوں میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو تعلیمیافتہ نہ ہونے کے باوجود مختلف فنی کاموں میں مہارت رکھتے ہیں۔ ویسے بھی یہ اللہ عزوجل کی شان ہیکہ اس نے اپنے ہر بندہ کو کئی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے معاشرہ میں معذورین کو ایک طرح سے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں عام رائے یہی ہوتی ہیکہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ خود اپنا خیال آپ نہیں رکھ سکتے لیکن اب ایسا لگتا ہیکہ اس طرح کی سوچ فرسودہ ہوگئی ہے۔ معذورین بھی عام انسانوں کی طرح زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ ہمارے ملک اور ہمارے شہر میں کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی (CSR) کے تحت اسٹیٹ بینک آف انڈیا، سنڈیکیٹ بینک، اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد، سنٹرل بینک، بنک آف بڑودہ، آئی سی آئی سی آئی، ایچ ایس بی سی، ایچ ڈی ایف سی، کنارا بنک سے لیکر بڑے بڑے صنعتی گھرانے، ہوٹلیں، سیول سیل اور ریئیل کے سرفہرست ادارے وغیرہ انسداد غربت اور معذورین کی بہبود کیلئے سالانہ ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرتے ہیں۔ حیدرآباد میں اپنی درجنوں ایجنسیاں ہیں جو قوت سماعت، قوت بصارت، قوت گویائی سے محروم اور دیگر قسم کے جسمانی معذورین کی بھرپور مدد (تربیت فراہم کرتے ہوئے) کے ذریعہ انہیں روزگار سے جوڑا ہی ہیں۔ چنانچہ شہر میں کچھ ایسی ہوٹلیں ہیں جہاں معذورین کام کرتے ہیں۔ ایسے تجارتی ادارے ہیں جو معذور نوجوان لڑکے لڑکیوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ انہیں پرکشش تنخواہیں دی جارہی ہیں جس کے نتیجہ میں کل تک دوسروں پر انحصار کرنے والے یہ نوجوان اب خود کمائی کرتے ہوئے اپنے ارکان خاندان کی مدد کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں تک حیدرآباد میں معذور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تعداد کا سوال ہے مسلمانوں میں معذور بچے بشمول گونگے اور بہروں کی تعداد دوسرے طبقات سے کہیں زیادہ ہے لیکن ہم کسی سرکاری اسکیم سے واقف ہے اور نہ ہی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے معذورین کو روزگار فراہم کرنے سے متعلق پروگرامس کے بارے میں جانتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایسے مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں جو گونگے بہرے اور معذور ہوں انہیں روزگار کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ سماج کے تئیں کارپوریٹ شعبہ کی جو ذمہ داری ہے اس سے وہ استفادہ کرسکتے ہیں۔ وہ گروپ بنا کر اپنا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔ بہترین ہوٹلوں اور مشہور و معروف اوٹ لیٹس میں ملازمت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں روزنامہ سیاست ان کی ہر طرح سے رہنمائی کرے گا۔ حال ہی میں فلمی اداکارہ آملا اکینینی نے جو تلگو اداکار اکینینی ناگرجنا کی اہلیہ ہے ایک خصوصی تقریب میں اس بات پر زور دیا کہ بلالحاظ مذہب و ملت تمام معذورین کو کارپوریٹ سوشیل ریسپانسبلٹی کے تحت متعارف کی جانے والی اسکیمات سے استفادہ کرانا چاہئے۔ اس میٹنگ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے علاوہ تمام بینکس اور کارپوریٹ اداروں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ایک مسلم معذور لڑکے نے بتایا کہ کبھی اسے لوگ معذوری کے طعنے دیئے کرتے تھے لیکن آج وہ ماہانہ 18 ہزار روپئے کماتے ہوئے اپنے گھر والوں کی مدد کررہا ہے۔ بہرحال روزگار حاصل کرنے کے خواہاں معذورین دفتر سیاست سے ربط کرسکتے ہیں۔ mriyaz2002@yahoo.com