روزگار کیلئے صرف تعلیم یافتہ ہونا ہی ضروری نہیں ، پرکشش شخصیت اور مہارت لازمی

لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ملازمتوں کے لیے ان فٹ ، ملک کے لیے 2022 تک 700 ملین قابل ورکرز کی ضرورت
حیدرآباد ۔ 6 ۔ نومبر : ( نمائندہ خصوصی ) : نوجوان نسل کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔ تعلیم انسان کو سماج میں ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہے ۔ آدمی کو حقیقت میں انسان بناتی ہے اور روزگار کے حصول میں تعلیم اہم ذریعہ ثابت ہوتی ہے لیکن آج کل تعلیم روزگار کی ضمانت نہیں ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ انسان کا ہنر مند ہونا اور اس کی پرکشش شخصیت کافی معنی رکھتی ہے ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ہر سال ہزاروں انجینئرس نکلتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لڑکے لڑکیاں بی ٹیک اور ایم ٹیک کرتی ہیں ۔ مختلف مضامین میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کی جاتی ہے ۔ خود کو انفارمیشن ٹکنالوجی کے کئی ایک کورس سے آراستہ و پیراستہ کیا جاتا ہے لیکن جب ملازمتوں کے حصول کا وقت آتا ہے تو ان کی تمام قابلیت رفو چکر ہوجاتی ہے ۔ ملازمتوں کے حصول میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ناکامی کی وجوہات کا پتہ لگانے پر انکشاف ہوا کہ یہ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ملازمتوں کے لیے موزوں ہی نہیں ۔ اگرچہ ان لوگوں نے ڈگریاں حاصل کرلی ہیں لیکن ان میں اپنی مادری زبان کے سواء کئی اور دوسری زبان خاص طور پر انگریزی میں مہارت نہیں پائی جاتی ۔ وہ پرکشش شخصیت کے حامل بھی نہیں ہوتے ۔ ماہرین کے خیال میں آج ہندوستان کو جن بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں ملازمتوں کے لیے ان فٹ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں ۔ کئی ایسے نوجوانوں کو دیکھنے ان سے ملنے کا موقع ملا ہے جو پیشہ وارانہ کورسس کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار حاصل کرنے سے قاصر ہیں ۔ فروغ انسانی وسائل کی کمپنی پیپلز اسٹرانگ اور کانفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی جانب سے حال ہی میں ایک رپورٹ تیار کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ہندوستان کو سال 2022 تک تقریبا 700 ملین ماہر ورکرز کی ضرورت ہوگی کیوں کہ ملک کی بڑھتی معیشت کے پس منظر ماہر ورکرز کی زبردست طلب ہوگئی ہے ۔ آپ کسی بھی صنعت کار یا تاجر سے دریافت کرلیں اس کا جواب یہی ہوگا کہ ہندوستان میں کافی افرادی قوت ہے لیکن روزگار کے لیے ان فٹ ہے ۔ پی ایچ ڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سربراہ شرد جئے پوریہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اگرچہ نوجوان آبادی پائی جاتی ہے لیکن ڈگریاں رکھنے کے باوجود اکثر نوجوانوں میں مہارت کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ نوجوانوں میں پائی جانے والی اس کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو چاہئے کہ ایک مناسب میکانزم وضع کرے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ باصلاحیت افرادی قوت کی قلت صنعتی شعبہ کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ حکومت نے ملک میں 2022 تک 500 ملین افراد کو مختلف فنون میں ماہر بنانے کا ہدف رکھتی ہے یہ ایسی تعداد ہے جو 28 یوروپی ممالک کی جملہ آبادی کے تقریبا مساوی ہے لیکن حکومت کے اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنا ہدف مکمل نہیں کرسکے گی کیوں کہ اس کے ہاں سالانہ تقریبا 8 ملین مرد و خواتین کو تربیت فراہم کرنے کی گنجائش ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکزی محکمہ جات اور وزارتوں نے اپریل 2011 سے مشترکہ طور پر صرف 17.39 ملین افراد کو تربیت فراہم کی ہے اور گذشتہ تین برسوں میں سے دو سال نشانہ کی تکمیل نہ کرسکے ۔ یہ بات ایک سرکاری ڈاٹا کا جائزہ لینے پر سامنے آئی ۔ صنعتی شعبہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی ایک جائیداد کے لیے کم از کم 11 امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے ، ان میں 10 کو مسترد کردیا جاتا ہے ۔ مینوفیکچرنگ شعبہ میں حالات مزید ابتر ہے ۔ جہاں صرف ایک مخلوعہ جائیداد کے لیے 15 امیدواروں کو انٹرویوز کے لیے طلب کیا جاتا ہے ۔ ٹاٹا گروپ کمپنی ، وولٹاس لمٹیڈ میں ٹریننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے شعبہ کے سربراہ پرشانت رائے اس بارے میں کہتے ہیں کہ امیدوار کا نہ صرف تعلیمی اعتبار سے اچھا ہونا بلکہ عملی طور پر مہارت و کام کاج کے اصولوں سے اچھی طرح واقف رہنا ضروری ہوتا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امیدواروں کا مختلف زبانوں خاص کر انگریزی زبان میں ماہر ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ان کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں جب کہ مہارت اور پرکشش شخصیت انہیں کامیابی کی راہ پر تیزی سے گامزن کرتی ہے ۔ آل انڈیا کونسل آف ٹکنیکل ایجوکیشن کے مطابق ہندوستان میں ہر سال 10 لاکھ انجینئرس اور مینجمنٹ گریجویٹس نکلتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک تہائی نوجوانوں کو موزوں ملازمت حاصل نہیں ہوتی ۔ ملک کے بعض باوقار مینجمنٹ اداروں کی جانب سے کئے گئے جائزوں میں یہ بات سامنے آئی کہ 2011 میں مینجمنٹ کورسیس کرنے والوں میں سے صرف 25 فیصد مرد و خواتین کو روزگار حاصل ہوسکا ۔ نوجوان ہندوستانی ایک مخصوص ملازمت کرنا اس لیے نہیں چاہتے کہ انہیں ملازمت اچھی نہیں لگتی ہے بلکہ زندگی کی تمنائیں پوری کرنے کی خاطر وہ کسی بھی قسم کی ملازمت کرنے تیار ہوجاتے ہیں ۔۔