کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے
بولے ہے جو مجھ سے تو اشارات کہیں اور
روزگار اور مودی
رشوت ستانی کے خاتمہ کے لیے حکومت کی مہم کو کامیاب بنانے نوجوانوں سے مددکی خواہش کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے چار سال قبل ملک کے نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ لیکن اقتدار حاصل ہونے کے بعد سے آج تک وزیراعظم نے موافق نوجوان کوئی پالیسی وضع نہیں کی اور نہ ہی روزگار کے وعدے کو پورا کیا ۔ بلکہ وہ اب اپنی بیان بازیوں ٹی وی چیانلوں کو انٹرویوز دیتے ہوئے الٹ پلٹ فقرے ریمارک کے ذریعہ ہی اپنی حکومت کی پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ملک کی اپوزیشن پارٹیاں ان کی ہر بات کو شدت سے نوٹ کررہی ہیں مگر وہ فی الحال مودی کے خلاف اپنا محاذ مضبوط بنانے میں ناکام ہیں ۔ حالیہ مہینوں میں ملک کے اندر ہونے والی تبدیلیوں ، مہنگائی ، بیروزگاری میں اضافہ نے عوام کو صدمات و حادثات سے دوچار کردیا ہے ۔ اس سے دل پر زخم لگ رہے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن ملک کے بیروزگاروں کے اداس اور غمزدہ چہرے بتاتے ہیں کہ ان کو حکومت نے کس حد تک نظر انداز کردیا ہے بلکہ مودی کی ان باتوں سے مایوسی ہوتی ہے جو انہوں نے حال ہی میں ایک ٹی وی چیانل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے ٹی وی اسٹوڈیو کے باہر کوئی شخص پکوڑے فروخت کرتا ہے اور شام کو 200 روپئے گھر لے جاتا ہے تو کیا اس کا یہ روزگار نہیں ہوگا ۔ مودی کے خلاف کانگریس کے سینئیر لیڈر سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے سلسلہ وار ٹوئیٹ پیامات پوسٹ کیے ہیں ۔ ان کا کہنا قابل غور ہے کہ حکومت روزگار پیدا کرنے کے مسئلہ پر لا جواب ہے ۔ وزیراعظم مودی کو خود روزگار اور ملازمت کے درمیان کا فرق ہی نہیں معلوم ہے ۔ ملازمت کو باقاعدہ ایک محفوظ زمرہ تصور کیا جاتا ہے ۔ حکومت نے ملک میں روزگار پیدا کرنے کے لیے کئی دعوے کئے ہیں لیکن اپوزیشن کی نظر میں یہ دعوے کھوکھلے ہیں ۔ اگر پکوڑے بیچنا ایک ملازمت ہے تو پھر بھیک مانگنا کیا ہوگا ۔ کیا مودی کی حکومت پکوڑے بیچنے کو روزگار سمجھتی ہے تو وہ بھیک مانگنے کو وہ ایک روزگار ہی تسلیم کرے گی ؟ پکوڑے فروخت کرنے کو ملازمت سمجھنا مودی کی منطق اس ملک کے بیروزگار نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے ۔ 19 جنوری کو وزیراعظم نے ٹی وی چیانل کو انٹرویو دے کر خود اپنی حکومت کی کمزور سوچ کا ثبوت دیا ہے ۔ آنے والے سال 2019 کے عام انتخابات سے قبل وزیراعظم مودی کو اپنی حکومت کی خوبیوں اور کارناموں کے ساتھ رائے دہندوں کے درمیان جانا ہے ۔اپنی حکومت کے نظم و نسق کو نہایت متاثر کن کرتے ہوئے اگر وہ فرائض کی ادائیگی کے احساس اور انتظامیہ کی اہلیت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوتے تو مودی کی صلاحیت اور حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ۔ وزیراعظم مودی نے کرپشن کے خلاف جاری جنگ میں تعاون کرنے نوجوانوں سے اپیل کی ہے لیکن دیکھا جائے تو کرپشن پہلے سے زیادہ فروغ پا رہا ہے ۔ حکومت کو کرپشن پر قابو پانے کے لیے بصیرت اور اہلیت کے مظاہرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک منظم اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ کام کیا جائے تو بدعنوانیوں کو روکا جاسکتا ہے ۔ مودی نے اپنی حکمرانی میں بہتری لانے کی کوشش ضرور کی ہوگی مگر کالا دھن لانے کا وعدہ جوں کا توں ہی رہ گیا ہے ۔ اس لیے ان کے بیانات تو اپوزیشن والے سیاسی شعبدے سمجھ رہے ہیں ۔ جب کہ عوام کے مسائل ، دکھ اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایک فلم کی مخالفت میں زعفرانی ٹولے سڑکوں پر نکل کر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں ۔ اس طرح کی کارروائیوں سے مودی حکومت کے منصوبوں کو کس قدر فائدہ یا نقصان پہونچے گا یہ غورنہیں کیا گیا تو پھر خرابی برقرار رہے گی ۔ حکومت کا سسٹم سرد مہر ، کرپٹ اور نا اہل ہے اس کے باوجود حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے مودی نے بدعنوانیوں کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے ملک کے ان 3 سابق چیف منسٹروں کا حوالہ دیتے ہیں جنہیں جیل کی سزا ہوئی ہے ۔ قانون کی حکمرانی کی وجہ سے اگر ان تین سابق چیف منسٹروں کو جیل میں ڈالدیا گیا ہے تو اسی طرح کے واقعات حکمراں پارٹی کے قائدین کا بھی تعاقب کررہے ہیں لیکن کوئی بھی حکومت اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھنا نہیں چاہتی ۔ بہر حال کرپشن ہی ایسی لعنت ہے جو وقت آنے پر ہی سیاستدانوں کے مستقبل کو کھا جاتی ہے ۔ بہر حال وزیراعظم نریندر مودی نے کرپشن کے خاتمہ کے لیے اب تک ایک سے زائد مرتبہ زور دیا ہے وہ اس ملک کو ذات پات ، فرقہ پرستی ، دہشت گردی اور کرپشن سے پاک بنانے کے عزم کے ساتھ حکمرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ آگے چل کر بھی ان کے قول اور فعل میں مواقفیت دیکھی جاسکے گی ۔۔