نئی دہلی ۔ 27 ۔ اگست (سیاست ڈاٹ کام) دہلی ہائی کورٹ نے آج رنجیت کمار کوہلی عرف رقیب الحسن کو جھارکھنڈ پولیس کے پاس تین دن کی ٹرانزٹ ریمانڈ پر بھیج دیا ہے، جن پر نیشنل شوٹر تارا شہدیو کو دھوکہ دہی کے ساتھ شادی کرنے اور اسے جبراً اپنا مذہب تبدیل کرنے کا الزام ہے۔ چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ستیش کمار اروڑہ نے رنجیت کوہلی اور ان کی 65 سالہ والدہ کوشلیا رانی کو تین دن کی ریمانڈ پر بھیجتے ہوئے جھارکھنڈ پولیس کو ہدایت دی ہے کہ تین کے اندر ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نے کہا کہ ’’ہم نے تین دن کے ریمانڈ پر لینے کی اجازت دیتے ہیں‘‘۔ ملزم کو دہلی پولیس اور جھارکھنڈ پولیس کی جانب سے سخت سیکوریٹی بندوبست کے دوران عدالت میں پیش کیا گیا۔ کمرہ عدالت میں اس وقت بدنظمی پیدا ہوگئی جب وکلائے عدالت نے ملزم کی تصویر کشی کی کوشش کی جس کے بعد چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نے اس معاملہ کی اپنے چیمبر میں کارروائی انجام دی ۔ اپنے چیمبر میں سماعت کے دوران دہلی پولیس نے جج کو اطلاع دی کہ رنجیت کوہلی کو گزشتہ رات دوارکا سیکٹر 6 مارکٹ کے نزدیک رات 10.30 بجے اس وقت گرفتار کرلیا گیا، جب وہ اپنے دوستوں سے فون پر بات کر رہا تھا
جبکہ ان کی والدہ کوشلیا رانی کو نصیر پور ایریا دوارکا سے گرفتار کیا گیا ہے جہاں وہ اپنے فرزند کے ایک دوسرے کے گھر میں ٹھہری ہوئی تھی۔ تحقیقاتی آفیسر برہما جیت نے کہا کہ کوہلی کو ایسے وقت گرفتار کرلیا گیا جب اپنی ماں اور دوست سے ایک اجنبی نمبر سے بات کر رہا تھا ۔ پولیس نے اس موقع پر کوہلی کے قبضہ سے ایک لیاپ ٹاپ اور پیسے بھی ضبط کئے ہیں۔ رانچی پولیس کی جانب سے کوہلی کے خلاف اپنی بیوی کے ساتھ دھوکہ دہی ، استحصال اور اذیت رسانی کا کیس درج کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں تارا شہدیو نے اپنے شوہر پر الزام عائد کیا ہے کہ شادی کے بعد ہی وہ اپنے شوہر کے مذہب کے بارے میں جان سکی۔ انہوں نے مزید الزام عائد کیا کہ رنجیت کوہلی نے اس وقت انہیں اذیت رسانی کا شکار بنایا جب اس نے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے انکار کردیا۔ تارا نے مزید کہا کہ وہ اپنے ارکان خاندان کو ایک ایس ایم ایس اس وقت بھیج پائی جب انہیں دہلی منتقل کیا گیا اور ان پر گزرنے والے حالات سے اپنے ارکان خاندان کو آگاہ کیا۔ رانچی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے گزشتہ روز کہا تھا کہ تارا نے رنجیت کوہلی عرف رقیب الحسن کے ساتھ اپنی مرضی سے جاریہ سال 7 جولائی کو شادی کی تھی، اور یہ کہ رقیب الحسن نے کچھ عرصہ سے مذہب اسلام میں دلچسپی لینی شروع کی تھی۔