ٹھوک بیوپاریوں کی کارستانی ، عوام کو پریشانی ، قیمتوں پر کنٹرول کی ضرورت
حیدرآباد۔ 6 جولائی (سیاست نیوز) ماہ رمضان المبارک کے دوران میوہ جات کی خرید و فروخت میں ہونے والے اضافہ کے پیش نظر قیمتوں میں بھاری اضافہ کردیا گیا ہے اور اس اضافہ پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں میوہ جات کی قیمتوں میں ہوئے اضافہ کے متعلق ٹھیلہ بنڈی رانوں کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ یا کمی ان کے اختیار میں نہیں بلکہ ٹھوک بیوپاریوں کی جانب سے متعین کردہ قیمتوں میں کچھ اضافہ کے ساتھ وہ فروخت کرتے ہیں تاکہ انہیں منافع حاصل ہوسکے لیکن حالیہ دنوں میں دیکھے گئے بے تحاشہ اضافہ سے عوام میں شدید برہمی پائی جارہی ہے، کیونکہ ضرورت کے پیش نظر عوام میوے خرید رہے ہیں لیکن بے تحاشہ اضافہ سے ان میں برہمی پیدا ہورہی ہے۔ موز، آم، تربوز، سپوٹا، انناس، انار کے علاوہ دیگر میوہ جوکہ ماہ صیام کے آغاز سے قبل بازار میں نہایت واجبی قیمت پر دستیاب تھے، ان میں زبردست اضافہ کردیا گیا ہے۔ 60 تا 70 روپئے درجن فروخت کئے جارہے موز کی قیمت ماہ مقدس کے آغاز سے قبل 30 تا 40 روپئے درجن تھی۔ اسی طرح 50 تا 70 روپئے کیلوگرام فروخت کئے جانے والے سیب کی قیمتوں میں بھی تقریباً دوگنا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح 30 تا 40 روپئے فروخت کئے جانے والے آم کی قیمت بڑھاکر 60 تا 80 روپئے کردی گئی ہے۔ ٹھوک بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ طلب میں اضافہ اور سپلائی میں ہونے والی کمی کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن چلر فروش بیوپاریوں کا تاثر ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے دوران فروخت کئے جانے والے میوہ جات کی سپلائی اور طلب میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے بلکہ ماہ مقدس کے آغاز سے قبل بیشتر میوے ذخیرہ کرلئے جاتے ہیں جن میں انار، سیب، موز، انناس وغیرہ شامل ہیں۔ شہر میں موجود میوے کے بڑے تاجرین کا کہنا ہے کہ غیرموسمی پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے جس میں آم بھی شامل ہوچکا ہے چونکہ مانسون کی آمد کے بعد آم کی فصل کمزور ہوجاتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ معمول کی بات ہے۔ ماہ رمضان کے دوران میوؤں کے استعمال میں ہونے والے اضافہ سے عوام پر اس کا راست اثر مرتب ہورہا ہے لیکن عوامی راحت کیلئے کوئی میکانزم سرکاری طور پر موجود نہیں ہے جبکہ اگر حکومت چاہے تو میوہ جات کی قیمتوں کے تعین کے سلسلے میں باضابطہ احکامات جاری کرسکتی ہے چونکہ پھلوں کی شہر میں آمد سے فروخت تک کا ریکارڈ حکومت کے پاس دستیاب ہوتا ہے اور حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ پھلوں پر کتنے فیصد اضافہ ٹھوک بیوپاری حاصل کررہے ہیں۔ بعض عہدیداروں کی ملی بھگت اور معاملہ فہمی کے سبب ٹھوک بیوپاری من مانی قیمتوں میں عوام کو پھل فروخت کررہے ہیں جس کے اثرات عام بازار پر مرتب ہورہے ہیں۔